مسلمانوں کا مسئلہ کیا ہے؟

2

عمیر انس

آپ کسی پڑھے لکھے یا کسی عام مسلمان سے پوچھیں کہ مسلمانوں کے مسائل کا بنیادی سبب کیا ہے؟ بغیر کسی انتظار کے آپ کو بتایا جائے گا کہ اتحاد کی کمی، تعلیم کی کمی، روزگار کی کمی اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کی کمی۔ ہزاروں جلسے اور تقریریں، ہزاروں مضامین اور مقالے لکھے اور پڑھے گئے ہیں، لیکن ذرا دیکھیں کہ کیا یہ اسباب سچ مچ میں اہم ہیں؟ اسرائیل میں ستر سالوں سے ایک پارٹی کی حکومت آج تک نہیں بنی، آپسی اختلافات میں ان سے زیادہ شاید ہی کوئی ہو۔ ویسے بھی مسلمان کچھ خاص آپسی لڑائی نہیں کرتے، تعلیمی حالات بھی کوئی بہت برے نہیں ہیں، مزید بہتر ہونے چاہیے لیکن اس سے بھی زیادہ خراب تعلیمی حالات میں رہنے والی قومیں ہم سے بہتر سکون چین سے رہ رہی ہیں، رہی بات دینداری کی تو ہندوستانی مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ دیندار مسلمانوں میں سے ایک ہیں، تو پھر پانی کہاں مر رہا ہے؟
میرے نزدیک مسلمانوں کے مسائل کے تین بڑے اسباب ہیں، اول: مسلمانوں نے اپنے مسائل کو سمجھنے، پڑھنے، ان پر تحقیقی نظر سے گفتگو کرنے کی ساری ذمہ داری دوسروں کو دے رکھی ہے، مسلمانوں کے مسائل پر لکھی جانے والی سبھی اچھی تصانیف، کانفرنس اور تحقیقات عموماً غیر مسلم حضرات کی مہربانیوں سے ہوتی ہیں، اس کا انجام یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا موضوع ایک جذباتی موضوع ہے جہاں جوش خطابت غالب ہے اور حقائق پر سنجیدہ گفتگو غائب ہے، مثال کے طور پر کسی مسلم تنظیم سے پوچھئے کہ فلاں ضلع کے مسلمانوں کے معاشی اور تجارتی مسائل پر ایک کتاب، مقالہ، قابل اعتبار اعداد و شمار پیش کریں، آپ کو بڑی مایوسی ہوگی۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کیا ہیں، کیوں ہیں، کیسے ہیں، اس موضوع پر سنجیدہ، تحقیقی معیار پر قابل قبول، حکومتی اداروں، عدالتوںاور تھنک ٹینکس کے معیار سے قابل استدلال مطالعہ موجود ہی نہیں ہے، اگر سچر کمیٹی کی رپورٹ نہ ہو تو مسلم تنظیمیں اپنے کسی مطالعے کی بنیاد پر مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کو ثابت نہ کرپائیں، اس لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی مظلومیت، اپنی پسماندگی، اپنی ضرورتوں اور اپنے مطالبات کو موثر اور قابل قبول طریقے سے پیش کرنے میں ناکام ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم امت کی بنیادی ضرورتیں اور ترجیحات کیا ہیں، اس پر ان کی تیاری نہیں ہے۔ بیس کروڑ عوام کی ترقی اور فلاح کے لیے کل کتنے مالی اور انسانی وسائل کی ضرورت ہے اور وہ وسائل کہاں سے آئیں گے، نہیں معلوم۔ مثال کے طور پر اگر مسلمان ایک ملک کی شکل میں کہیں ہوتے تو کم از کم پانچ سو ٹیلی ویژن ہوتے، سیکڑوں اخبارات ہوتے، دو تین فلم انڈسٹری ہوتیں، سیکڑوں فیکٹریاں ہوتیں، اسکولز اور میڈیکل کالجز کی قابل ذکر تعداد ہوتی، ان میں ساری ضرورتیں تو حکومت پوری نہیں کرسکتیں، وہ تو انہیں خود سے سوچ سمجھ کر پیدا کرنا ہوں گی، اس لحاظ سے پوچھیں کہ سہارنپور میں مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے کتنے ڈاکٹر ہونے چاہیے تھے اور کتنے سول سرونٹس اور کتنے دیگر سرکاری شعبوں میں کام کرنے والے درکار تھے، اور جب یہ نہیں ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لیے مسلم تنظیمیں اور قیادت کیا کر رہی ہیں ؟ تو آپ کو احساس ہوگا کہ مسلم تنظیموں اور قیادت کی گفتگو میں منصوبہ بند سوچ، اسٹرٹیجک سوچ، طویل مدت کی ضرورتوں پر گفتگو اور فیصلوں کا رواج ہی نہیں ہے۔ مدارس کھولنے کی مہم چلی تو ہر شخص مدرسہ چلانے لگا۔ حفظ قرآن کی مہم ہوئی تو سب اس میں مصروف ہوئے، لیکن ضرورتوں کے مطابق وسائل خرچ کرنے کا رواج نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کتنے مدارس کے پاس شاندار عمارتیں ہیں لیکن طلبا نہیں، کہیں طلبا ہیں تو ان کے لیے اچھے اساتذہ نہیں، کہیں اچھے اساتذہ ہیں تو ان کو معیاری تنخواہ نہیں۔ ہزاروں خواتین پر ایک بھی خاتون ڈاکٹر نہیں۔ ہزاروں طالبات پر اچھی استانیاں نہیں، نرسیں نہیں، منتظم نہیں، تو گویا مسلم معاشرہ ایک غیر منصوبہ بند ماحول میں آگے بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ پچیس سالوں میں جہاں جہاں مسلمانوں کی نئی آبادیاں قائم ہوئی ہیں یا شہر بنے ہیں، وہ سارے شہر انتہائی غیر منصوبہ بند ہیں، بلڈروں اور سرمایہ داروں نے مسلمان آبادیوں کی شہری منصوبہ بندی کا ایسا بیڑا غرق کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری اسکول، اسپتال، مارکیٹ تو چھوڑیئے نالی اور پانی تک کے لیے جگہ نہیں چھوڑی اور حیرت ہونی چاہیے کہ مسلم محلوں میں صفائی، سڑک، صحت، اسپتال، خواتین اور بچوں کی صحت جیسے موضوعات عوامی گفتگو سے یکسر غائب ہیں۔ گویا کہ مسلمان ایک ایسی مخلوق ہیں جنہیں دنیاوی مشکلات کبھی لاحق نہیں ہوسکتیں، اس فکر کو بدلنے والی قیادت اور عوام کی ضرورت ہے۔ اسٹرٹیجک تھنکنگ کا مطلب ہے کہ مستقبل کی ضرورتوں کا اور مسائل کا قبل از مطالعہ اور اس کے مطابق اقدامات۔ اگر آپ کو معلوم ہے کہ بیس سال بعد آپ کے شہر میں مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ ہوگی تو یہ منصوبہ بنانا کیا مشکل ہے کہ نئی آبادی کے لیے زیادہ بہتر علاقہ، سہولتیں اور نوکریاں و روزگار کہاں ملیں گے، کتنے ڈاکٹرز کی ضرورت ہوگی، مساجد اور مدارس کو بہتر بنائے رکھنے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ملت اسلامیہ ہند ایک ایسے مزدور کی طرح جی رہی ہے جس کو روز کھانے کے لیے روز کمانے کی فکر کرنا ہے، اس یومیہ مزدور کی نفسیات سے باہر نکلے بغیر کوئی حل ممکن نہیں ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان بیس کروڑ کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ایک سیاسی قوت نہیں بن سکے ہیں۔ ایک جمہوری سیاست میں کسی بھی طبقے کی سیاسی قوت ہی ہے جو اس کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ماحول بنا سکتی ہے، جس پارٹی میں ان کا کچھ اثر تھا اب وہ بھی ختم ہو گیا ہے، لیکن یہ سیاسی اثر کوئی ایک دن میں ختم نہیں ہوا ہے، یہ عرصے سے ایک ایسی سیاست کا نتیجہ ہے جس میں مسلم معاشرہ سیاسی طور پر منظم نہیں ہے، وہ جتنا فرقوں اور جماعتوں میں منظم ہے اتنا سیاسی طور نہیں ہے۔ بد قسمتی سے مسلم قائدین عوامی حمایت والے نہیں ہیں، مذہبی موضوع نہ ہو تو چار پانچ ہزار لوگوں کو بھی جمع کرنا ناممکن ہے، مسلمانوں میں ترقیاتی مسائل کے لیے، اسپتال، اسکولوں اور سڑکوں کے نام پر منظم ہونے، احتجاج کرنے اور مہمات چلانے کا کلچر نہیں ہے، ان کے سبھی ادارے غیرجمہوری سیاست کے لیے بنے ہیں۔ نوجوان سیاستداں اور کارکنان کے لیے سیاست میں آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کے امکانات بھی کم ہیں۔ جو حکومت اور انتظامیہ عوامی رد عمل اور عوامی پریشر کو جانتی ہے، اسے عوام کا احترام کرنا پڑتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو ایک بھیڑ کے بجائے عوام بننا ہوگا اور عوام بننے کے لیے انہیں اپنی اپنی تنظیموں میں متحرک ہوکر سیاسی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر حصہ لینا ہوگا۔
آپ کہیں گے کہ یہ باتیں کسی کلاس کے لیکچر کے لیے ٹھیک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنی موجودہ لڑائی ہار چکے ہیں، معاشرے میں ان کو الگ تھلگ کیا جا چکا ہے، ایمرجنسی اور آگ بجھانے والی نفسیات سے فوری کام فوری نتیجہ والے کاموں سے اب کوئی فائدہ نہیں ہے، انہیں ایک بہتر مستقبل کے لیے مضبوط بنیادیں بنانے کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔
(مضمون نگار انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS

2 COMMENTS

Comments are closed.