ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے دورۂ سعودی عرب پر ابھی دو مہینہ کی مدت بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی ترکی کا دورہ مکمل کر لیا ہے۔ یہ اس خطہ کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ طیب اردگان کا دورۂ سعودی عرب 28 اپریل 2022 کو عمل میں آیا تھا جب کہ محمد بن سلمان نے 22 جون 2022 کو ترکی کا اپنا یہ دورہ مکمل کیا ہے۔ ان کا یہ دورہ گرچہ بہت مختصر تھا اور خاص طور سے ترکی ہی کے لیے نہیں تھا بلکہ اس دورہ میں مصر اور اردن کا سفر بھی شامل تھا لیکن اس کے باوجود محمد بن سلمان کا یہ دورۂ ترکی بڑی اہمیت کا حامل مانا جا رہا ہے۔ اس دورہ سے محض دو دن قبل ہی یعنی 20 جون کو سعودی عرب نے کورونا کی وجہ سے اپنے شہریوں پر ترکی جانے کے سلسلہ میں جو پابندی عائد کی تھی، اس کو اٹھا لیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مابین تعلقات کو بہتر بنانے اور اسے مزید استوار کرنے کی کوششیں دونوں جانب سے یکساں طور پر کی جا رہی ہیں۔ اس دورہ کا بنیادی مقصد کیا تھا، اس کو سمجھنے کے لیے اس مشترک بیان کے الفاظ کو دیکھا جانا چاہیے جس کو دورہ کے اختتام پر پیش کیا گیا تھا۔ مشترک بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تعلقات کا جائزہ مختلف پہلوؤں سے لیا گیا اور مضبوط انداز میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ سیاسی، اقتصادی، عسکری، سیکورٹی اور ثقافتی میدانوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ جن میدانوں میں باہم تعاون کی توقع ظاہر کی گئی ان میں پٹرولیم، انرجی، پٹروکیمیکل اور بجلی کی پیداوار وغیرہ شامل ہیں۔ ترکی نے خاص طور سے سعودی عرب کی انوسٹمنٹ فنڈس کو دعوت دی کہ وہ ترکی کی چھوٹی چھوٹی کمپنیوں میں انوسٹمنٹ کریں اور ان کے ساتھ مل کر تجارت کریں تاکہ ایک دوسرے کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔ اس ظاہری اور روایتی پہلو کے علاوہ محمد بن سلمان کے اس مختصر دورۂ ترکی کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کہ اسی برس جولائی کے نصف تک امریکی صدر جو بائیڈن کا دورۂ سعودی عرب متوقع ہے۔ بائیڈن شاید ایسے پہلے امریکی صدر ہیں جو سعودی عرب سے امریکہ کے گہرے اور تاریخی روابط کے باوجود کرسیٔ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد محمد بن سلمان کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ رکھنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اس بے اعتنائی کی وجہ یہ تھی کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار اور سعودی عرب کے ممتاز صحافی جمال خاشقجی کو بڑی بے دردی سے ترکی میں واقع سعودی قونصل میں 2018 کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔ سی آئی اے کے مطابق اس قتل کے ڈانڈے محمد بن سلمان کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ گویا امریکی ادارہ میں یہ موقف جڑ پکڑ چکا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ اس موقف سے امریکی صدر جو بائیڈن بھی اتفاق رکھتے ہیں۔ امریکہ کے اس موقف کا بڑا منفی اثر محمد بن سلمان کے سیاسی کریئر پر پڑا ہے۔ کسی زمانہ میں مغربی دنیا میں ان کا استقبال ہیرو کی طرح ہوتا تھا اور تمام بڑے اخبارات و رسائل میں ان کی تصویریں چھپتی تھیں اور ان کے افکار کی تعریف کی جاتی تھی۔ لیکن جمال خاشقجی قتل کے بعد مغربی میڈیا اور مغربی ممالک کے لیے سعودی ولی عہد تقریباً اچھوت بن گئے جن کے ساتھ تصویر کھنچوانا کسی بھی مغربی لیڈر کے لیے مناسب نہیں مانا جاتا ہے۔
امریکی صدر بھی شاید اپنے اس موقف پر قائم رہتے اور سعودی عرب کے اس مضبوط اور با اثر لیڈر بلکہ مستقبل کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یوکرین پر روسی جارحیت سے سارا کھیل ہی بدل جائے گا۔ امریکہ نے جب روس کے انرجی سیکٹر پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ کیا تو اسے یہ فکر لاحق ہوئی کہ پہلے وہ اپنے یوروپی حلیفوں کے لیے روسی انرجی اور گیس کا متبادل مہیا کرے تاکہ یہ اقتصادی پابندی کارگر ہو سکے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے جب جو بائیڈن نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ فون سے رابطہ کرنا چاہا تو محمد بن سلمان اور محمد بن زاید آل نہیان نے امریکی صدر کا فون لینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے جو بائیڈن کو بڑی سبکی اٹھانی پڑی اور وہ اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوگئے۔ حالات کو سنبھالنے کے لیے امریکی صدر کو اپنے تجربہ کار سفارتکاروں کو مشرق وسطیٰ بھیجنا پڑا جنہوں نے امریکی موقف اور خاص طور سے جو بائیڈن کے ادارہ کی پالیسی کی مجبوریوں کو بیان کیا اور محمد بن سلمان کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں انہیں کسی قدر کامیابی ملی۔ ساتھ ہی ایران نیوکلیئر معاہدہ پر ویانا میں جاری گفتگو کے اندر بھی سعودی عرب کے بعض اعتراضات کی روشنی میں تبدیلی پیدا کی گئی۔ اب امریکی صدر خود اگلے مہینہ سعودی عرب کے دورہ پر تشریف لا رہے ہیں تاکہ امریکہ-سعودی تعلقات کی تلخی کو مزید کم کیا جا سکے۔ دوسری طرف خود محمد بن سلمان کے لیے بھی یہ اچھا موقع ہے کہ وہ خاشقجی قتل کے خوفناک سایہ سے باہر آ سکیں اور مغربی دنیا میں انہیں وہی قبولیت پھر سے حاصل ہوجائے جس کے وہ عادی ہو چکے تھے۔ اس مقصد کے لیے دورۂ ترکی سے زیادہ اچھا اور موثر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ آخر کار ترکی ہی تو وہ ملک ہے جہاں یہ جانکاہ حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس وقت ترکی کے صدر طیب اردگان نے گرچہ جمال خاشقجی قتل معاملہ میں محمد بن سلمان پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا لیکن انہوں نے اتنا بیان ضرور دیا تھا کہ خاشقجی قتل کا آرڈر سعودی کے اعلیٰ ترین عہدہ داران کی جانب سے آیا تھا۔ اردگان کے اس بیان پر سعودی عرب نے اپنے غصہ کا اظہار بھی کیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بری طرح متاثر ہوگئے تھے۔ لیکن آج ترکی کے اندرونی مسائل بھی کچھ زیادہ ہی الجھ گئے ہیں۔ خاص طور سے اقتصادی محاذ پر ترکی کی حالت بری طرح لچر ہوچکی ہے۔ ترکی لیرہ امریکی ڈالر کے مقابلہ ستر فیصد اپنی قیمت کھو چکا ہے۔ ادھر یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے سیاحت کا سیکٹر سخت مسائل سے دوچار ہے اور انرجی اور غذائی مواد کی مہنگائی سے صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ترکی کو سعودی عرب کے انوسٹمنٹ کی کس قدر ضرورت ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ اس کے علاوہ صدر اردگان کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئندہ برس آنے والا ہے جب ترکی میں صدارتی انتخابات عمل میں آئیں گے۔ اس موقع پر انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ترکی کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کی صلاحیت اب بھی ان میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں اگر سعودی عرب کا انوسٹمنٹ وہاں بڑھ جاتا ہے تو اس کا پورا پورا فائدہ طیب اردگان اور ان کی پارٹی کو ملے گا۔ اس پس منظر کو دھیان میں رکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ تعلقات کی درستگی کا فائدہ دو طرفہ ہے۔ ایک طرف جہاں محمد بن سلمان کو عالمی اسٹیج پر جگہ مل جائے گی وہیں دوسری طرف طیب اردگان کو سیاسی طور پر زندہ رہنے کا سامان ہاتھ آ جائے گا۔ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کی کوششوں کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ترکی نے حالیہ دنوں میں ڈرون کی تکنیک میں بڑی مہارت حاصل کرلی ہے اور ترکی کے ڈرون نے لیبیا، شام اور آذربیجان کے علاوہ روس-یوکرین جنگ میں بھی بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور جنگ کا توازن ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب دنیا بھر میں ترکی کے ڈرون کو نیک نامی حاصل ہوچکی ہے اور کئی ممالک اس کو خریدنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سعودی عرب جسے یمن کے حوثیوں کے حملوں کی زد میں ہر روز جینا پڑتا ہے اس کی دلچسپی بھی اس ڈرون کے حصول میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ محمد بن سلمان کے دورہ سے اس سمت میں بھی پیش رفت ہوگی اور سعودی عرب کو حوثیوں کے حملوں سے راحت مل پائے گی۔ ان سب کے علاوہ ترکی اور سعودی عرب تعلقات کا ایک بین الاقوامی پہلو ہے جو نہایت اہم ہے۔ قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا رخ اب چین اور روس کی طرف منتقل ہو چکا ہے اور اسی لیے وہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کو حل کرنے میں زیادہ رغبت نہیں رکھتا ہے۔ سپر پاور کے مشرق وسطیٰ سے انخلاء کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جس کو پْر کرنے کی کوشش اس خطہ کے تمام ممالک کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو کبھی آپس میں ایک دوسرے سے آنکھ ملانے کو تیار نہیں تھے اب ان کے لیڈران آپس میں بات چیت کر رہے ہیں اور رشتہ کو ہر روز بہتر بنانے کی فکر میں ہیں جن میں عراق کی ثالثی کے ذریعہ ایران-سعودی عرب کے درمیان جاری گفتگو، ترکی و مصر تعلقات، ترکی اور امارات کے مابین تعلقات اور معاہدے شامل ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ سپر پاور امریکہ کا اثر و رسوخ اس خطہ میں جتنا کم ہوتا جائے گا مشرق وسطیٰ کے ممالک آپس میں اسی قدر قریب آتے جائیں گے۔ ترکی اور سعودی عرب نہ صرف اس خطہ میں بلکہ پوری مسلم دنیا میں بڑی امید کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اگر ان کے درمیان بہتر رشتے قائم ہو جاتے ہیں تو اس کے اچھے اثرات پورے خطہ میں ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu