مہنگائی، بے روزگاری اور بازار

0

مہنگائی بے روزگاری اور بازار یہ تینوں چیزیں پوری دنیا کے لئے فکر مندی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اگر وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ان پر قابو پانے میں ہم ایک طرح سے ناکام نظر آرہے ہیں۔ کہیں سے بھی اچھے اشارے نہیں مل رہے ہیں ، بلکہ جس طرح کا رجحان دیکھ رہے ہیں۔ اس سے حالات کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ مہنگائی کا سبھی ہرروزتجربہ کرتے ہیں۔ آئے دن ہر چیز خصوصاً خوردنی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ جو لوگ ماہانہ راشن خریدتے ہیں، دوسرے مہینے جب خریداری کرنے جاتے ہیں تو ہر چیز کی قیمت بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ سے باورچی خانہ کا بجٹ بگڑ جاتا ہے۔ یہ تو عام لوگوں کا تجربہ ہے۔ خود ریزروبینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانت داس نے گزشتہ دنوں کہا کہ مہنگائی معیشت کیلئے سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ کووڈ19-کے بعد ملک میں معاشی سرگرمیاں برھنے کے باوجود مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ہی 8جون کو ریپوریٹ میں 0.50فیصد کا اضافہ کرکے 4.9کردیا تھا۔ آگے بھی اتنا ہی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریپوریٹ کو 6.00فیصد تک کیاجاسکتا ہے۔اس سے مہنگائی قابو میں آئے یا نہ آئے بینک سے قرض لینے والوں کا بوجھ ضرور بڑھ جاتا ہے اور ان کی ای ایم آئی پہلے سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح مہنگائی ہر ایک کیلئے پریشان کن بنی ہوئی ہے۔
ایک تو بے تحاشا مہنگائی اوپر سے بے روزگاری، وہ بھی مہنگائی کی طرح کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری کس قدر ہے۔ اس کو بیان کرنے کے لئے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ جس طرح شکاری شکار پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اسی طرح لوگ روزگار اور ویکنسیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کوئی بھی اپنی ڈگری اورتعلیمی قابلیت کو نہیں دیکھتا۔ بس نوکری اور روزگارکودیکھ کرٹوٹ پڑتا ہے اور درخواست دیتا ہے۔ چوتھے درجہ کی ملازمت نکلے، جس کیلئے 12پاس کی ڈگری مطلوب ہوتی ہے لیکن درخواست دہندگان میں ایم فل، پی ایچ ڈی، گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ حتیٰ کہ بی ٹیک کرنے والوں کی بھیڑ بھی شامل ہوجاتی ہے اور سلیکشن کمیٹی کے لئے انتخاب کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک بھر میں نوجوانوں نے ’اگنی پتھ‘ اسکیم کے خلاف جو پرتشدد مظاہرہ کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر بے روزگاری ہے، بے روزگار نوجوان کتنے پریشان اور اپنے مستقبل کو لے کر مایوس ہیں، ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ تب ہی تو انہوں نے آسمان سرپر اٹھایا تھا۔ اگرچہ جلد حالات قابو میں آگئے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بے روزگار نوجوانوں کے مسائل حل ہوگئے۔ آگے مزیدحالات خراب ہوسکتے ہیں پھر نوجوانوں کو قابو میں کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس لئے بے روزگاری کے مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور ضرورت بھی۔
رہی بات بازار کی تو دنیا بھر کی ریٹنگ ایجنسیاں ہماری جی ڈی پی اور معاشی ترقی کے اندازے گھٹا رہی ہیں۔ بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر و قیمت میں گراوٹ الگ پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ایکسپورٹ میں کمی آرہی ہے اور امپورٹ بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک سینسکس میں 18اور نفٹی میں 16فیصد کی گراوٹ آچکی ہے۔ بازار کی غیر یقینی حالت کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کار شیئر بازار سے مسلسل پیسہ نکال رہے ہیں۔ اکتوبر 2021سے اب تک وہ 3لاکھ کروڑ روپے نکال چکے ہیں۔سینسکس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی کمی خردہ سرمایہ کار سرمایہ کاری کرکے پوری تو کررہے ہیں، لیکن نفٹی میں خردہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ غرضیکہ بازار مستحکم نہیں ہورہا ہے اور مہنگائی وبے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی بہتری کی امید کیسے کرے؟ ٹھوس معاشی پالیسی اور ٹھوس اشارے کی ضرورت ہے۔ تبھی لوگوں میں پھیلی مایوسی اور غیر یقینی کیفیت دور ہوسکتی ہے۔
[email protected]

ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS