عبیداللّٰہ ناصر
مسلح افواج میں بھرتی کو لے کر مودی حکومت نے ’اگنی پتھ‘ کے نام سے جو نیا نظام لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے لے کر ملک کے نوجوانوں میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔ ویسے تو یہ بے چینی پورے ملک میں ہے لیکن بہار اور اتر پردیش میں اس کا سب سے زیادہ اثر دکھائی دے رہا ہے۔ بہار میں احتجاج پر تشدد ہو گیا ہے، اتر پردیش کے بھی کئی اضلا ع میں پر تشدد احتجاج ہو رہے ہیں، ٹرینوں اور بسوں کو آگ لگائی جا رہی ہے، ریلوے ا سٹیشن اور دوسری سرکاری تنصیبات کو نذر آتش کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کئی ضلعوں میں بی جے پی کے نو تعمیر شدہ شاندار دفتروں کو بھی آگ لگا دی گئی اور بی جے پی کارکنوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔حکومت نے جو نیا نظام لاگو کیا ہے، اس کے تحت فوج میں بھرتیاں صرف چار سال کے لیے ہوںگی، اس کے بعد ان جوانوں کو سبکدوش کر دیا جائے گا اور انہیں کوئی پنشن وغیرہ بھی نہیں دی جائے گی یعنی چار سال بعد وہ بے روزگار ہوجائیں گے۔ویسے تو تقریباً سبھی سرکاری محکموں میں ملازمت کا ٹھیکا نظم نافذ کر دیا گیا اور ابھی دس سال پہلے تک جو سرکاری ملازمت نہ صرف ایک پر سکون محفوظ زندگی کی ضمانت تھی بلکہ سبکدوشی کے بعد پنشن ملنے کی وجہ سے تاحیات کسی پر منحصر نہیں رہنا پڑتا تھا اور اپنی زندگی کا بہترین وقت سرکاری خدمت میں دینے کے صلے میں یہ ضمانت خدمات کا اعتراف بھی تھا اور وجہ سکون بھی،پنشن کا وہ سلسلہ کافی پہلے ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد سرکاری ملازمتو ں میں بھی ٹھیکا نظام نافذ کر دیا گیا یعنی سنویدا کرمی(کنٹریکٹ ورکر ) کے طور پر سرکار ی نوکریاں دینا شروع کیا گیا اور بہت سے محکموں میں سیدھی بھرتی کے بجائے ایجنسیوں کے ذریعہ بھرتیاں کی جانے لگیں یعنی ملازمت کسی سرکاری محکمہ کی نہیں بلکہ ایجنسی کی ہوتی ہے اور وہ ان کی اجرت سے اپنا کمیشن کاٹ کر انہیں تنخواہ دیتی ہے۔ فی الحال تو ایجنسیوں پر یا اگر سنویدا کرمی کے طور پر راست بھرتی بھی ہوئی تو کچھ سماجی تحفظ جیسے پرا ویڈنٹ فنڈ وغیرہ کٹتا ہے مگر پنشن کا پرانا نظام نہیں ہے بلکہ ایک نیا نظام نافذ کیا گیا ہے جس کے اثرات بد اب ان ملازمین کی بھی سمجھ میں آنے لگے ہیں جو کبھی اس کی حمایت کرتے تھے اور اسی لیے پرانی پنشن بحالی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
دیگر محکموں میں تو ملازمت کا یہ ٹھیکا نظام یا جز وقتی بھرتی کے اپنے بد اثرات ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہ نظام کسی فلاحی حکومت کا نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے خون چوسنے والے سرمایہ دارانہ یا جسے عام بول چال میں بنئے کی نوکری کہا جاتا ہے، وہ ہے جہاں ملازم ہمہ وقت اپنی ملازمت کو محفوظ رکھنے کے لیے مالک کے سامنے سر جھکائے گڑگڑاتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی تنخواہ میں اضافہ کو بھی اپنا حق نہیں سمجھتا بلکہ مالک کی چشم کرم کا متمنی رہتا ہے، دیگر حقوق کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں پاتا لیکن فوج میں یہ نظام نہ صرف جوانوں کے مستقبل سے بھی کھلواڑ ہے بلکہ ملک کی دفاع کے ساتھ بھی ایک خطرناک کھیل ہے کیونکہ اصل جنگ تو سپاہی فضائیہ کا ایئر مین اور بحریہ کا سیلر ہی لڑتا ہے، افسران تو میدان جنگ سے دور کسی کیمپ میں بیٹھ کر حکمت عملی ہی تیار کرتے ہیں۔ جتنا بڑا افسر ہوتا ہے وہ میدان جنگ سے اتنا ہی دور ہوتاہے، ایسے میں فوجیوں کا غیر محفوظ مستقبل ان کے حوصلوں کو پست ہی کرے گا جس کے بد اثرات کو نظر انداز کرنا عقل مندی نہیں ہے۔
فوج میں ملازمت محض ذریعہ معاش نہیں ہے، فوج کی وردی پہن کر جو سینہ چوڑا ہوتا ہے، دل و دماغ میں ایک فخر کا جو احساس ہوتا ہے، گھر گاؤں خاندان میں جو رتبہ بنتا ہے وہ ایک الگ ہی احساس پیدا کرتا ہے۔گاؤں کے بہت سے جوان باہر رہ کر ملازمتیں کرتے ہیں لیکن جو فوج میں ہیں وہ جب گاؤں واپس آتے ہیں تو ’’پلٹنیحا آوا ہے‘‘جیسے الفاظ صرف اسی کے لیے استعمال ہوتے ہیں، سوچئے جب وہی فوجی چار سال بعد سبکدوش نہیں بلکہ بے روزگار ہو کے لوٹے گا تو خود اس کے جذبات کیا ہوں گے اور گھر گاؤں خاندان میں اس کے بارے میں کیا خیالات ہوں گے اور ایسے غیر محفوظ مستقبل والے جوان کی شادی بیاہ میں کیسی کیسی مشکلات در پش آئیں گی۔حکومت کہتی ہے کہ جب یہ نوجوان سبکدوش ہو کے جائیں گے تو ان کے پاس گیارہ بارہ لاکھ روپے ہوںگے جن سے وہ کوئی بھی کارو بار شروع کرسکتے ہیں، آج کی تاریخ میں بھی اتنی رقم سے کون سا کاروبار شروع ہو سکتا ہے، چار سال بعد اتنی رقم کی کیا اصل ویلیو ہوگی، سمجھا جاسکتا ہے۔ سب سے شرمناک اور افسوسناک بیان تو بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ نے دیا ہے کہ وہ ان سبکدوش فوجیوں کو جنہیں نیا نام ’اگنی ویر‘ دیا گیا ہے، بی جے پی کے دفتروں میں بطور سیکورٹی گارڈ رکھ لیں گے۔ کشن ریڈی جو مرکزی وزیر بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم انہیں بال کاٹنے، کپڑے دھونے، پنچر بنانے جیسے چھوٹے چھوٹے کاموں کی تربیت دیں گے تاکہ وہ سبکدوش ہونے کے بعد یہ کام کر کے اپنی زندگی کی گاڑی چلا سکیں۔سوچئے جن سبکدوش فوجیوں کے لیے سابقہ حکومتوں نے ایک الگ محکمہ سولجر سیلر ایئر مین بورڈ بنا رکھا تھا جو ان سبکدوش فوجیوں کی ہر طرح سے خبر گیری رکھتا ہے، ان سبکدوش فوجیوں کو لے کر موجودہ حکومت کی سوچ اتنی سطحی اور گری ہوئی ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ ان سبکدوش اگنی ویروں کو نیم فوجی دستوں وغیرہ میں ہونے والی بھرتیوں میں دس فیصد ریزرویشن دیا جائے گا لیکن سرکاری ملازمتوں اور ملازموں کو لے کر موجودہ حکومت اور حکمراں جماعت کی جو سوچ ہے، اس میں ایسے کسی وعدے پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے۔
مسلح افواج میں بھرتی کی یہ نئی اسکیم جسے ’اگنی پتھ‘ نا م دیا گیا ہے، مودی سرکار کی لائی گئی ان تمام اسکیموں کی طرح ہی ہے جو اس کے مستفیدین کی سمجھ میں آج تک نہیں آسکی ہے جیسے نوٹ بندی ماہرین معاشیات آج تک نہیں سمجھ سکے، جی ایس ٹی تاجر طبقہ نہیں سمجھ سکا، شہریت ترمیمی قانون مسلمان نہیں سمجھ سکے، دفعہ370کا ہٹایا جانا اور جموں وکشمیر ریاست کے حصہ بخرے ریاست کے عوام نہیں سمجھ سکے، زرعی قوانین کسان نہیں سمجھ سکے تھے مگر ان سب اسکیموں کا ملک پر کیا منفی اثر پڑا ہے، یہ عوام سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حالانکہ زبردست پروپیگنڈہ کے بل پر حقیقت عوام سے چھپائی جا رہی ہے۔مسلح افواج میں بھرتی کے اس نئے نظام کے کیا اثرات ہوں گے، یہ حکومت بھلے ہی اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے بل پر خوب ایسا ویسا اچھالتی رہے لیکن اس سے مسلح افواج کے حوصلہ پر منفی اثر پڑے گا، اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت متاثر ہوگی۔ہمارے چاروں طرف جو سیکورٹی ماحول ہے، خاص کر چین کی طرف سے ہمیں جو خطرہ ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوے اس طرح کی طالع آزمائی مہم جوئی اور فوج کو تجربہ گاہ بنا دینا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ بیشک آج کی جنگ اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی جنگ ہوگی لیکن آخر کار جنگ میں فتح فوجی کے حوصلہ کی ہی ہوتی ہے۔اس اسکیم کے مخالف دفاعی ماہرین روس اور یوکرین کی جاری جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جدید ترین اسلحہ ہوتے ہوئے بھی روس اگر یوکرین پر حتمی کامیابی نہیں حاصل کر سکا ہے تو اس کی بہت بڑی وجہ روس کے پاس حوصلہ مند پیشہ ور سپاہیوں کی کمی ہے ورنہ ہٹلر کی فوج کو شکست دینے والی روسی فوج ایک چھوٹے سے ملک یوکرین کے سامنے اتنے دنوں تک جنگ میں پھنسی نہ رہتی۔سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد سوویت فوج بھی بکھر گئی تھی، موجودہ روس اس کمزوری کو دور نہیں کر سکا ہے۔چین کی فوج کی طاقت اسلحہ تو ہے ہی لیکن پیپلس لبریشن آرمی نامی اس کی فوج کی نفری قوت اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ میدان جنگ میں ایک فوجی مرتا ہے، اس کی جگہ وہ دس فوجی اتار دیتا ہے جبکہ ’اگنی پتھ‘ اسکیم کا خاص مقصد فوجیوں کی تعداد کم کرکے پنشن اور تنخواہ وغیرہ کا خرچ کم کرنا بتایا جاتا ہے۔ دفاع کے معاملہ میں اس دلیل کو قطعی قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حکومت سینٹرل وسٹا جیسے مد میں جس کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں ہے، بیس ہزار کروڑ روپے خرچ کر سکتی ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کھربوں روپے کا مفت غلہ تقسیم کر سکتی ہے اور ایسی ہی نہ جانے کتنی غیر پیداواری اسکیمیں حکومت چلا رہی ہے اور ملک کے دفاع کے ساتھ یہ کفایت شعاری ؟
مسلح افواج میں بھرتی کی ’اگنی پتھ‘ نام کی اس نئی اسکیم سے غیر جانب دار دفاعی ماہرین سبکدوش فوجی افسران اور فوج میں بھرتی کے خواہش مند وہ نوجوان جو ا س کے لیے گزشتہ کئی مہینوں سے ورزش دوڑ وغیرہ کی پریکٹس کر رہے تھے وہی شاکی نہیں ہے بلکہ سماج کا ایک بڑا طبقہ جو آر ایس ایس کے منصوبوں کو سمجھتا ہے اور سماج میں پھیلی نفرت، تشدد، ناانصافی سے پریشان ہے، وہ اس اسکیم کو لے کر بھی مودی حکومت کی نیت پر شک کر رہا ہے۔اس کا خیال ہے کہ معاملہ صرف دفاعی بجٹ کم کرنے تک ہی محدود نہیں ہے، آر ایس ایس اور مودی حکومت کی یہ ایک سوچی سمجھی طویل مدتی اسکیم ہے او وہ اسے ہری دوار کی دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل اور اس پر حکومت کے لچر رویہ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ممتاز صحافی اور سیکولر زم کے ایک بہادر علمبردار پروین ملہوترا نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ یہ در اصل آر ایس ایس کو تربیت یافتہ رضاکار فراہم کرنے کی اسکیم ہے جس کا مقصد ہٹلر کی گسٹاپو کی طرز پر ایک خفیہ فورس تیار کرنا ہے اور جس طرح گسٹاپو یہودیوں کی نسل کشی میں پیش پیش تھی ویسے ہی یہ ممکنہ فورس بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کے کام آ سکتی ہے، ایسا ہی شبہ ممتاز دانشور پروفیسر امتیاز احمد نے بھی ظاہر کیا ہے۔ جینو سائد واچ نامی عالمی تنظیم کی رپورٹ ہری دوار دھرم سنسد میں اس کی اپیل، اس معاملہ پر حکومت کی معنی خیز خاموشی اور اب اس طرح بیروزگار مسلح نوجوانوں کی فورس کھڑی کرنا، جس کا برین واش کر کے اس سے کچھ بھی کرایا جا سکتا ہے، خطرہ کی گھنٹی لگتی ہے۔کل ملا کر دیکھا جائے تو ’اگنی پتھ‘ نام کی یہ اسکیم نہ تو ملک کے دفا ع کے حق میں بہتر لگتی ہے نہ روزگار فراہمی میں معاون ثابت ہونے کا امکان روشن کرتی ہے اور سماج کے بہت بڑے طبقہ کے دلوں میں خوف اور خدشہ ہی پیدا کرنے والی ہے، اس پر نہ صرف نظر ثانی ہونی چاہیے بلکہ حکومت کو سماج میں پھیلے خدشات دور کرنے کی بھی پہل کرنی چاہیے۔دوسری جانب مسلم نوجوانوں سمیت حقیقی محب وطن نوجوانوں کوموقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر مسلح افواج میں بھرتی ہونے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جسم پر وردی کی شان اور دل میں وطن پر قربان ہونے کا جذبہ کچھ عجیب ہی نشہ پیدا کرتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]