ملک کا وقاراور فرقہ وارانہ خیرسگالی دائو پر

0

ذکی نور عظیم ندوی

ایک ایسا مسئلہ جس پر بظاہر ایک ہفتہ سے زائد کا وقت گزرچکاہے اور وطن عزیز میں اس سلسلے میں مختلف احتجاجات، تردیدی ومذمتی بیانات اورمختلف مطالبات بھی کئے جاچکے ہیں لیکن اچانک وہ مسئلہ ایک ایسانیا رخ لیتاہے کہ دوبارہ ہرجگہ ملکی وبین الاقوامی میڈیا میںچھاجاتاہے اور چہارطرفہ بیانات اور اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جارہے ہیں۔ درحقیقت یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قومی ترجمان محترمہ نپور شرما کے ذریعے ایک ٹی وی مباحثہ میں نبی ؐ اور آپ کی زوجہ مطہرہ کے متعلق کہے گئے اس ریمارکس سے متعلق ہے جو صرف مسلم ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کیلئے کسی طرح قابل اطمینان قرار نہیں دیاجاسکتا۔جس کے بعد ملک کے مختلف حلقوں میں اس پر اعتراضات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔بعض جگہوں پر احتجاجی پروگرام بھی ہوئے جس میں چند جگہوں پر پولیس اورعوام کے درمیان تصادم اور مسلمانوں وغیرمسلموں کے درمیان پتھراؤ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں اوران کی بعض تنظیموں اوراداروں کی جانب سے مذمتی بیانات اورقراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ اسی طرح حکومت اورانتظامیہ سے مذہبی شخصیات کے خلاف ایسے بیانات کی روک تھام کی سنجیدہ اپیلیں بھی کی گئیں جس سے ملک کے سیکولر اقدار پر آنچ نہ آئے اورآپسی پیار و محبت اور مختلف مذاہب کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ہندوستان کی قدیمی روایات کو تقویت ملے، لیکن انتظامیہ یا حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں نہ صرف یہ کہ مکمل خاموشی کا ثبوت دیاگیا بلکہ بعض جگہوں پر دستوری احتجاج کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور چند جگہوں پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف تو ناسمجھ میں آنے والی کارروائیاں کی گئیں۔
واضح رہے کہ نپور شرما کا بیان کسی عام فرد کا بیان نہیں بلکہ حکمراں جماعت کی ایک ایسی قومی ترجمان کابیان ہے جو ایک زمانے سے پارٹی سے منسلک ہیں وہ اے بی وی پی کی طرف سے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کا انتخاب بھی جیت چکی ہیں، دہلی انتخابات میں اروند کیجریوال کے مقابلہ پارٹی کی امیدوار بھی تھیں اگرچہ کہ اس میں شکست ہوئی، پارٹی کے یوتھ ونگ میں نیشنل ایگزیکٹیو کی رکن بھی اورپارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز بھی رہی ہیں۔ اس حیثیت سے یہ بیان کسی بھی طرح کسی عام فرد کانہیں بلکہ حکومت سے منسلک ایک ذمہ دار اور حکمراں پارٹی کی ایک اہم فرد کابیان تھا جس پر پارٹی کو فوری طور پرکارروائی کرنی چاہیے۔ لیکن نہ جانے کیوں اس کی سنگینی کو بالکل محسوس نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارا ملک جو کثرت میں وحدت اوربین الاقوامی سطح پرمذہبی ہم آہنگی کیلئے تاریخی حیثیت کاحامل ہے۔ اْس کے سلسلے میں ایک غلط پیغام منتقل ہوا جسے بین الاقوامی سطح پرصرف مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ امریکہ اوراس کے جیسے دوسرے سیکولر کردار کے حامل ملکوں نے بھی محسوس کیا اورہندوستان کی اقلیتوں کے تئیں اس کی حالیہ سالوں میں رویہ کی شدید مذمت کی۔
لیکن اچانک دودن قبل حکومت کی طرف سے اس واقعہ پر سنجیدہ نوٹس کی خبریں سامنے آنے لگیں اور اس بیان سے ناصرف یہ کہ لاتعلقی کا اظہار کیا جانے لگا بلکہ مذکورہ ترجمان پر سخت تادیبی کارروائی کرتے ہوئے انہیں ان کے عہدے اور پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے برطرف کر دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر یہ خبریں آنے لگیں کہ مختلف ملکوں نے ہندوستانی سفراء کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے اِس طرح کے بیان پر سرکاری سطح پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور بعض ملکوں میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کا عوامی اورتجارتی سطح پر حیرت انگیز ایک سلسلہ چل پڑا اور مختلف دوست ملکوں کی طرف سے ہندوستان کی اس حرکت کو ہر طرح سے ناقابل قبول قرار دیا گیا یعنی ملکی سطح پر ملک کے اقدار کی بدنامی بھی ہوئی اور ملک کو بری طرح مالی وسفارتی طور پر نقصانات کا خدشہ ستانے لگا، اس خسارے کو حکومت نے بھی محسوس کیا اور اس کی تلافی کی ہرممکن کوشش کی۔
مذکورہ بالا صورت حال کے جائزہ سے چند سوالات کا پیدا ہونا کسی طرح غیر مناسب نہیں۔ اگر مذکورہ بالا واقعہ واقعی غلط اور نامناسب تھا توآخر حکومت نے اس طرح کی کارروائی میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ جس کی وجہ سے دنیا میں بہت سے وہ ممالک جو ہندوستان جیسے عظیم ملک کے سامنے بظاہر کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے ان کی طرف سے بھی سخت ترین بیانات ہی نہیں بلکہ وضاحت طلب کی جارہی ہے اوراس کے جواب میں حکومت ہند کا رویہ صفائی پیش کرنے اور وضاحت دینے کے ساتھ ساتھ متعلقہ افراد کے خلاف ایسی ناقابل یقین حد تک کارروائی تک پہنچنے لگا جس کا حکومت کے گذشتہ کئی سالوں کے رویہ کو دیکھتے ہوئے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس کا قانونی اور سفارتی طور اعلان بھی کیاجارہاہے۔ اوراگر یہ واقعات غلط اور نا مناسب نہیں تھے تو پھر اس حدتک معذرت خواہانہ انداز اور وضاحت اورنہ صرف متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی بلکہ میڈیا سے متعلق دیگر افراد کو اس سلسلے میں کسی طرح کے بیان سے مکمل دوری بنانے اور ایک واضح لائحہ عمل وضع کرنے کی ہدایتیں کیوں سامنے آرہی ہیں۔ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ قطر جیسا ایک چھوٹا دوست ملک ہمارے نائب صدر جمہوریہ کے ساتھ پہلے سے طے شدہ ڈنر کو منسوخ کرکے آخر کیا پیغام دیناچاہ رہاہے جس کو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کررہے ہیں اور بیرون ملک صدر جمہوریہ کا پریس بریفنگ کا پروگرام بھی منسوخ کیاجارہاہے؟
اِن تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنے اور پوری صورت حال میں ملک کے بین الاقوامی وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں پہلے سے ایسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ جس کی وجہ سے آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت دوبارہ سرزد نہ ہونے پائے جس کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہو، اس کا وقار پھر داؤ پر لگ جائے، بلکہ ہمیں اس کی کوشش کرنی ہوگی کہ ’وشیو گرو ‘کی حیثیت سے اپنی حیثیت کو منوانے کیلئے ایک باوقار طریقہ کار اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے ملک میں بھی کسی طرح کی کشیدگی یا افراتفری نہ ہو، بلکہ باہمی پیار و محبت کا ماحول بنارہے اورہم پوری دنیا کو اعلیٰ انسانی اقدار کی طرف دعوت دینے کی پوزیشن میں رہیں اور بین الاقوامی سطح پر اگر کسی دوسرے ملک سے اس کے خلاف کوئی بات سرزد ہو تو ہم ان کو ان کی حیثیت یاد دلانے اوران اقدار کا لحاظ کرنے کاپابند کرسکیں۔
اِسی طرح یہ بھی مد نظر رہے کہ اگربین الاقوامی سطح پر ملک کی سماجی وسفارتی حیثیت پر کسی طرح سے کوئی آنچ آتی ہے تو نہ صرف یہ کہ ملک کا وقار مجروح ہوتاہے بلکہ دوسرے ملکوں میں انہیں بنیادوں پر ہندوستانی شہریوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ بلکہ ملازمت میں ان کی ان دیکھی ہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر ملازمت سے ان کی برخاستگی کی جو خبریں موصول ہورہی ہیں اس سے ملک اقتصادی اور تجارتی طور پر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا اور ملک کی ترقی کی رفتا رنہ صرف مدھم ہوجائے گی بلکہ وہ بیسوں سال پیچھے جا سکتا ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے میں حکومت کے ذمہ داروں اورتمام سیاسی پارٹیوں اوران کے ممبران سے ملک کی عزت ووقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی تمام حرکتوں سے بچنے کی امید کرتاہوں جو ہمیں ہماری تاریخی ورثہ، موجودہ بین الاقوامی حیثیت اورترقی یافتہ تجارتی واقتصادی میدان میں مزید پچھڑنے سے بچاسکے۔q

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS