حج گناہ ایسے دھو ڈالتا ہے جیسے پانی میل کو

0

مولانا فضل الرحیم اشرفی

جو شخص اللہ تعالی کیلئے حج کرے اور اس میں بری باتیں اور برے کام نہ کرے تو وہ حج کرکے اسی طرح لوٹتا ہے گویا کہ آج اس کی ماں نے اسے جنا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالی کے لئے حج کرے اور اس میں بری باتیں اور برے کام نہ کرے تو وہ حج کرکے اسی طرح لوٹتا ہے گویا کہ آج اس کی ماں نے اسے جناہے۔(متفق علیہ)
حج کی حقیقت ہی یہی ہے کہ خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام جیسی برگزیدہ بندوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا۔
اور اس بندگی کے طریقے کو اسی طرح بجا لانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجالائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے یہی ملت ابراہیمی اور یہی حقیقی اسلام ہے یہی روح اور یہی باطنی احساس ہے جس کو حاجی حضرات ان برگزیدہ بندوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔
اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں،اپنے بدن اور سر کے بال نہ منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں،نہ خوشبو لگاتے ہیں نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیںنہ سر ڈھانپتے ہیں جیساکہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں حاضر ہو کر پکارا۔
میں حاضر ہوں،اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔تیرا کوئی شریک نہیں ۔سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔آج ان تمام حاجیوں کے زبانوں پر وہی تین چار ہزار سال پہلے کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں۔یہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں جہاں ان دونوں نیک بندوں کے نقش قدم زمین پر پڑے۔
پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہاجرہ علیھا السلام نے پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان چکر لگائے آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں چلتے ہیں مخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔
عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہو کر اپنی گزشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیںخدا کے حضور گڑگڑاتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں اور وہاں وعدہ کرتے ہیں،آئندہ زندگی میں اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کاعہد کرتے ہیں، اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں، یہ تاریکی میدان دعاء کے مقامات ،لاکھوں بند گان خدا ایک رنگ میں، ایک لباس، ایک ہی جذبہ میں سرشار، ایک بے آب وگیاہ ، خشک میدان، پہاڑوں کے درمیان دعاء و مغفرت کی پکار گزشتہ عمر کی کوتاہیوں اور بربادیوں پر آہ وزاری، اپنی بدکاریوں کا قرار، بڑے بڑے شقی القلب لوگوں کے دل موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں۔
پھر اس پاکیزگی کے بعد یہ احساس کی یہی وہ مقام ہے جہا ں ابراہیم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بہت سے انبیا اسی حالت اور اسی صورت میں اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی تار تار اور نس نس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔
ارشاد نبوی کے مطابق اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیںمیں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔
پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے۔ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا میرا مرنا سب اللہ کیلئے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے اور میں سب سے پہلے فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔(الانعام)حج بیت اللہ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کر لانے والا یقیناارشاد نبوی کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا۔ اللہ تعالی ہمیں حج بیت اللہ کرنے کی سعادت اور پھر اس کی برکات سے مستفیض فرمائے آمین۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS