تعلیم پر خاص توجہ کی ضرورت

0

حالات جیسے بھی ہوں تمام والدین اپنے بچے کو اچھے اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کا خواب ہوتا ہے کہ بچہ پڑھ کر اچھا انسان بنے۔ لوگ اس کے لیے اپنی محنت کی کمائی خرچ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال سول سروس 2021کے نتائج مسلم طلبا کے لیے مایوس کن رہے۔گزشتہ ایک دہائی میں یہ مسلم طلبا کی سب سے خراب کارکردگی رہی جس پر مسلم حلقوں میں بحث جاری ہے ۔دوسری طرف حال ہی میں وزارت تعلیم کی جانب سے بچوں کی تعلیم سے متعلق ایک سروے کرایا گیا تھا ۔ملک بھر میں کیے جانے والے سروے کے نتائج حیران کن ہیں ۔نیشنل اچیومنٹ سروے(این اے ایس)رپورٹ2021 میں کہا گیا ہے کہ جیسے جیسے طلباآگے کی کلاسوں میں ترقی کرتے ہیں، ان کی کارکردگی خراب ہوتی جاتی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں،یہ جامع سروے کلاس 3، 5، 8 اور 10 کے لیے کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کی اوسط کارکردگی میں مسلسل کمی واقع ہوتی رہی۔ تیسری جماعت میں طلبامیں جو سیکھنے کی صلاحیت تھی، وہ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے نمایاں طور پر کم ہو گئی۔ مرکزی وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کردہ NAS 2021 رپورٹ کے نتائج تمام والدین، سرپرستوں اور اساتذہ کرام کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ مثال کے طور پر، ریاضی میں اوسط ا سکور 57 فیصد سے کم ہو کر 44 فیصد ہو گیا ،جس کے بعد کلاس میںآگے بڑھنے کے ساتھ 36 فیصد اور 32 فیصد ہو گیا۔
گزشتہ نیشنل اچیومنٹ سروے 2017 میں کیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے نئے سروے میں کارکردگی اور بھی مایوس کن نظر آتی ہے۔ تیسری کلاس کے لیے ریاضی میں قومی اوسط مارکس 57 فیصد رہ گئے ہیں، جو پچھلے سروے میں 64 فیصد تھے۔ ایک عام نظریہ یہ ہے کہ سبجیکٹ آگے کی کلاسوں میں زیادہ مشکل ہوجاتا ہے اور اس لیے بچوں کو زیادہ تعلیمی مہارتوں کے ساتھ پڑھانے کی ضرورت ہے۔ مناسب مدد اور تربیت کے بغیر سینئر طلباکے سیکھنے کی سطح اور ضروریات کو پورا کرنے میںاساتذہ کہیں زیادہ ناکام ثابت ہوں گے۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وبا کے دوران اسکولوں میں پڑھنے والے 25 فیصد بچوں کو پڑھائی میں والدین کی مدد نہیں ملی، 28 فیصد طلباکے پاس گھر میں ڈیجیٹل ڈیوائس نہیں ہے۔ یہ پہلوبھی اہم ہے کہ 80 فیصد طلبا نے کہا کہ وہ اسکول میں چیزیں بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں، جہاں انہیں ہم جماعت سے بہت مدد ملتی ہے۔97فیصد اساتذہ نے اپنی ملازمتوں پر اطمینان کا اظہار کیا، جبکہ تدریسی نتائج اچھے نہیں ہیں۔ اس سروے سے نکلنے والی کامیابی کی کہانیوں پر غور کرنے اور اس طریقے کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پنجاب کے طلباکس طرح ہر کلاس اور سبجیکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہاں کلاس 10 کے مضمون سائنس میں اوسط 46 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 35 فیصد ہے۔ طلباکی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی صلاحیتوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محض کلاس پاس کرنے کے لیے کی گئی پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سروے سے تو یہی لگتا ہے کہ نوجوان ہندوستانیوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔سروے کے نتائج ان لوگوں کیلئے بھی آنکھیں کھول دینے والے ہیں جو اپنی بیٹی کی تعلیم پر زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہتے۔سروے یہ بھی بتاتا ہے کہ زیادہ تر سطحوں پر بیٹیوں نے بیٹوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ سائنس، انگلش جیسے مضامین میں لڑکوں سے بہت آگے ہیں۔ تیسری جماعت میں لینگویج کے امتحان میں بیٹیوں کا قومی اوسط اسکور 323 اور بیٹوں کا 318 تھا۔ اسی طرح دسویں انگریزی کے امتحان میں بیٹیوں کے اوسط نمبر 294 جبکہ بیٹوں کے 288 تھے۔ سروے میں ایک اچھی بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں تعلیم کا فرق پہلے کی نسبت کم ہوا ہے۔ اس وقت دیہات کے بچوں کی انگریزی مضمون میں کارکردگی شہر کے مقابلے کمزور ہے۔وزارت تعلیم کے ذریعہ کرائے گئے اس سروے کا مقصدتیسری ،پانچویں ،آٹھویں اوردسویں جماعت کے طلباکی پڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیتوں سمیت اسکولی تعلیمی نظام کی حالت کا جائزہ لینا تھا۔ اس سروے میں دیہی اور شہری علاقوں کے 1.18 لاکھ اسکولوں کے 34 لاکھ طلبانے حصہ لیا۔
بہرحال یہ سروے رپورٹ طلبا کے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور وزارت تعلیم کے لیے بھی اہم ہے۔والدین کیلئے ضروری ہے وہ منفی سوچ کوبدلتے ہوئے بیٹا اور بیٹی کیلئے یکساں مواقع فراہم کریں اور زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کریں۔ سروے کے مطابق اساتذہ کرام اپنی ملازمت سے مطمئن ہیں۔ایسے میں یہ ان پر فرض ہے کہ وہ اپنی جوابدہی کو سمجھیں۔جہاں تک وزارت تعلیم کا سوال ہے تو ان کی ذمہ داری صرف سروے کرانے سے ختم نہیں ہوجاتی،بلکہ ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔انہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نظام تعلیم میںکیا خامیاں ہیں اور اس کیلئے کون کون ذمہ دار ہیں۔ان خامیوں کے خاتمہ کیلئے انہیںجوابدہی طے کرنی ہوگی۔جب تک اعلیٰ حکام اپنے فرائض کو ایمانداری کے ساتھ انجام نہیں دیں گے، اس وقت تک کسی کرشمہ کی امید کرنا بے معنی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS