وعدوں میں ہی کیوں ڈوب جاتے ہیں تالاب؟

0

پنکج چترویدی

جیسے ہی افسران تک یہ پیغام پہنچا کہ آزادی کے 75ویں سال میں ہر ضلع میں 75 تالاب کھودے جانے ہیں، لال بستوں میں بند تالابوں کو زندہ کرنے کے کئی پرانے دستاویزات نئے سرے سے نئی رقم کے ساتھ ٹائپ ہونے لگے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ تالابوں کے بغیر پانی کے بحران پر قابو پانا مشکل ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں اس سمت میں منصوبے بھی بنتے نظر آئے، نعرے و اشتہارات بھی خوب چمکے لیکن نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ عملی سطح پر کچھ اور ہی دکھتا ہے۔ واضح ہو کہ 2016 کے مرکزی بجٹ میں کھیتوں میں پانچ لاکھ تالاب بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اترپردیش میں یوگی سرکار کے پہلے سو دنوں کے کاموں کی فہرست میں تالاب ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا عزم یا پھر راجستھان میں کئی برسوں پرانی جھیل ڈیولپمنٹ اتھارٹی یا پھر مدھیہ پردیش میں سروور ہماری دھروہریا جل ابھیشیک جیسے نعروں کے ساتھ تالابوں-جھیلوں کو سنبھالنے کے منصوبے، ہر مرتبہ لگتا ہے کہ اب تال-تلیوںکے دن بدلیں گے۔ تبھی جب گرمی شروع ہوتے ہی پانی کی قلت، کھیتوں کے لیے ناکافی پانی اور گہرائی میں جاتے زیر زمین پانی کے آنکڑے اچھلنے لگتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ حقیقت میں تالاب کو بچانے کی شدید خواہش میں یا تو حکومت کا روایتی جانکاری کا سہارا نہ لینا آڑے آ رہا ہے یا پھر تالابوں کی بیش قیمتی زمین کو کمائی کا ذریعہ سمجھتے والے زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ اب سبھی کے سامنے ہے کہ آبپاشی کے بڑے منصوبے اخراجات، وقت اور نقصان کے مقابلے میں چھوٹی اور مقامی آبپاشی یونٹس زیادہ کارآمد ہیں۔ اس کے باوجود تالابوں کو بچانے کا جذبہ کہیں نظر نہیں آتا۔
اب پھر اعلان ہوگیا کہ آزادی کے 75 سال کے جشن میں ہر ضلع میں 75 تالاب کھودے جائیں گے لیکن کیا اس پر غور کیا گیا کہ ہمیں اس وقت نئے تالابوں کی ضرورت ہے یا پھر ہماری نئی انجینئرنگ تالاب کھودنے کے روایتی جوڑ گھٹاؤ کو سمجھتی ہے؟ پانی-پیاس اور نقل مکانی کے لیے بدنام بندیل کھنڈ کے سب سے زیادہ پریشان ضلع ٹیکم گڑھ میں تو چار دہائیاں قبل ایک ہزار تالاب تھے اور آج بھی تقریباً 600 تالاب ایسے ہیں کہ اگر ان میں صرف نالیوں کے پانی کو جانے سے روک دیا جائے اور تھوڑے سے قبضے ہٹا دیں تو نہ صرف پورا ٹیکم گڑھ پانی سے لبریز ہوگا بلکہ مچھلی، کمل گٹہ، سنگھاڑا سے عام لوگوں کے گھر میں لکشمی داخل ہو جائے گی۔ قریبی ضلع چھتر پور میں کشور ساگر تالاب سے غیر قانونی قبضوں کو ہٹاکر اسے حتمی شکل دینے کے لیے این جی ٹی سے لے کر ہائی کورٹ تک کئی بار احکامات دے چکے ہیں لیکن ایک دہائی گزر جانے کے باوجود انتظامیہ کی لال فیتہ شاہی ابھی تک تالاب کی پیمائش نہیں کر پارہی۔ اترپردیش کے بلیا ضلع کے ایک قصبے کا نام رتسڑاس میں موجود سیکڑوں ذاتی تالابوں کی وجہ سے پڑا تھا، سر یعنی سروور سے ’سڑ‘ ہوا۔ کہتے ہیں کہ کچھ دہائیوں قبل تک وہاں ہر گھر کا ایک تالاب تھا لیکن جیسے ہی قصبے کو جدیدیت کی ہوا لگی اور گھروں میں نل لگے، پھر غسل خانے آئے، نالیاں آئیں، ان تالابوں کو گندگی ڈالنے کا ’ناب دان‘ بنا دیا گیا۔ پھر تالابوں سے بدبو آئی تو انہیں ڈھک کر نئی کالونیاں یا دکانیں بنانے کا بہانہ تلاش کر لیا گیا۔ کالاہانڈی ہو یا منی پور کی لوک ٹک یا بھوپال کے تالاب یا پھر تمل ناڈو میں پولیکٹ، ملک کے ہر چپے پر ایسے تالاب-سروور پہلے سے ہیں جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔
ایک تو کاغذات پر پانی کے لیے پرکشش و دلفریب خواب گڑھنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ تالاب محض ایک گڑھا نہیں ہیں جن میں بارش کا پانی جمع ہو جائے اور لوگ استعمال کرنے لگیں۔ تالاب کہاں کھدے گا، اس کو جاننے کے لیے وہاں کی مٹی، زمین پر پانی کی آمد و نکاسی کے نظام، مقامی ماحول کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، ورنہ یہ بھی دیکھا گیا کہ گرینائٹ والے علاقوں میں کنویں یا تالاب کھودے گئے، رات میں پانی بھی آیا اور کچھ ہی گھنٹوں میں زیر زمین کہیں بہہ گیا۔ دوسرا، اگر بغیر سوچے سمجھے پیلی یا ڈھیلی مٹی میں تالاب کھودے جائیں تو آہستہ آہستہ پانی زمین میں بیٹھ جائے گا، پھر دلدل بنائے گا اور پھر اس سے نہ صرف زمین تباہ ہوگی بلکہ اردگرد کی زمین کی قدرتی نمکیات بھی پانی کے ساتھ بہہ جائے گی۔ غیرمنظم طریقے سے کھودے گئے ایسے م نہاد تالابوں کے شروعات میں بھلے ہی اچھے نتائج آئیں لیکن اگر نمی، دلدل، نمکیات بہنے کا سلسلہ صرف پندرہ سال بھی جاری رہا تو اس تالاب کے آس پاس لاعلاج بنجر بننا سائنسی حقیقت ہے۔
اگر تالابوں پر غور کیا جائے تو یہ صرف ایسے قدرتی ڈھانچے نہیں تھے جہاں پانی جمع ہو جاتا تھا۔ پانی کو جمع کرنے کے لیے علاقے کی آب و ہوا، کم سے کم بارش کا اندازہ، مٹی کی جانچ، زیرزمین پانی کی حالت، اس کے بعد تعمیراتی سامان کا انتخاب، گہرائی کا حساب جیسی کئی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ انگریزی زبان میں انجینئرنگ کی تعلیم نے نوجوانوں کی معلومات میں تو اضافہ کر دیا، لیکن ملک کا علم ان کی نصابی کتابوں میں کبھی نہیں رہا۔ تبھی جب سرکاری انجینئر سے تالاب کو بچانے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ اس پر اسٹیل کی سیلنگ لگانے، اس کے کنارے پر باغ لگانے اور پانی کی گہرائی کی پیمائش کرنے کے لیے مشین لگانے یا گہری کھدائی کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتا۔ پرانے اسٹرکچر مثالیں ہیں کہ اس دور میں بھی جدید ہائیڈرولوجی اور ماہر ہائیڈرو لوجسٹ موجود تھے۔ کئی بار لگتا ہے کہ آبی ڈھانچوں کو بنانے والوں کے ہاتھوں میں ناقابل یقین مہارت اور قدیم معماروں کی پیش کش میںملک کی مٹی اور آب و ہوا کی بہترین سمجھ کی سوندھی بو موجود تھی۔
حالیہ بین الاقوامی رپورٹیں ہوں یا پھر 1944 کے بنگال قحط کے بعد قائم کیے گئے کمیشن کے دستاویزات، سبھی میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں آبپاشی کے لیے تالاب ہی مضبوط ذریعہ ہیں، خاص طور پر جب ہمارے سامنے آب و ہوا میں تبدیلی کے خطرات ہیں۔ خوراک میں غذائیت کی کمی، کیمیاوی کھادوں کی زیادتی سے فصلوں کا زہرآلود ہونا، بڑھتی آبادی کو خوراک فراہم کرنے کا چیلنج، فصلوں میں تنوع کی کمی اور قدرتی آفات کے اثرات، سمیت کئی ایک چیلنجز زراعت کے سامنے ہوں تو تالاب ہی واحد سہارا رہ جاتا ہے۔
نئے تالاب ضرور بنیں، لیکن پرانے تالابوں کو زندہ کرنے سے کیوں بچا جا رہا ہے؟ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ملک میں آزادی کے وقت تقریباً 24 لاکھ تالاب تھے۔ 2000-01 میں جب ملک کے تالاب، پوکھروں کی گنتی ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہم آزادی کے بعد کوئی 19 لاکھ تالاب اور جوہڑ پی گئے۔ ملک میں اس طرح کے آبی ذخائر کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ ہے، ان میں سے تقریباً 4 لاکھ 70 ہزار آبی ذخائر کسی نہ کسی طریقے سے استعمال ہو رہے ہیں جبکہ تقریباً 15 فیصد بیکار پڑے ہیں۔
اگر حکومت تالابوں کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے تو گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران تالاب یا اس کے کیچمنٹ ایریا میں سے تجاوزات کو ہٹانے، تالابوں کے پانی کی آمد کے علاقے میں رکاوٹیں پیدا کرنے پر سخت کارروائی کرنے، نئے تالابوں کی تعمیر وغیرہ کے لیے ضروری سوسائٹی سے مقامی منصوبے تیار کیے جائیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ملک میں بااختیار تالاب ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی تشکیل دیانتداری سے کی جائے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم نے نئے تالابوں کی تعمیر تو نہیں ہی کی، پرانے تالابوں کو بھی پاٹ کر ان پر عمارتیں کھڑی کر دیں۔ زمین مافیا نے تالابوں کو پاٹ کر بنائی گئی عمارتوں کا اربوں کھربوں روپے میں سودا کیا اور خوب منافع کمایا۔ اس منافع میں ان کے حصہ دار بنے سیاسی لیڈر اور انتظامیہ کے افسران۔ مافیا- انتظامی افسران اور سیاسی لیڈروں کی اس جگل بندی نے ملک کو تالابوں سے محروم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
کاش! ندی-جوڑ جیسے ایک منصوبے کے پورے خرچ کے برابر کی رقم ایک بار ایک سال خصوصی مہم چلا کر پورے ملک میں روایتی تالابوں کی گاد ہٹانے، تجاوزات سے پاک کرنے اور اس کے پانی کی آمد اور نکاسی کے راستے کو محفوظ بنانے پر خرچ کر دی جائے تو بھلے ہی کتنی بھی کم بارش ہو، نہ تو ملک کا کوئی گلا سوکھا رہے گا اور نہ ہی زمین کی نمی ختم ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS