حکومت کی کشمیر پالیسی

0

دفعہ 370 ہٹ ائے جانے کے بعد یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ جموں و کشمیر کے حالات بہتر ہوں گے، دہشت گردی کے واقعات ختم ہوجائیں گے اور بے قصورو ں کی جان نہیں جائے گی لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہوا بلکہ حالات پہلے کے مقابلے بدتر ہوگئے ہیں۔ عوام خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں اور مرکز کے نامزد گورنر سرکاری ملازمین کے استعفیٰ وصول کررہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر کے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے بلند بانگ دعوے کے باوجود گزشتہ چند برسوں میں شدت پسند گروہوں میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 2018 میں 187، 2019 میں 121، 2020 میں181،2021میں142اوراپریل 2022 تک 28 افراد شدت پسند تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں۔ اگست 2017 سے جولائی 2019 تک جموں و کشمیر میں 129 عام شہری، 211 سیکورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد اگست 2019 سے اگست 2021 تک 66 شہری ہلاک ہوئے جب کہ اسی عرصے میں سیکورٹی فورسز کے 131 اہلکار شہید ہوئے اوراس دوران دہشت گردی کے کل 541 واقعات پیش آئے جن میں 439 دہشت گردوں کے ساتھ 109 فوجی جوان اور 98 بے گناہ شہری بھی مارے گئے۔
حکومت کی کشمیر پالیسی کی ناکامی بیان کرتے ہوئے حالات یہ بتارہے ہیں کہ موجودہ حکومت کا مقصد مسئلہ کو برقرار رکھ کرصرف انتخابی فوائدحاصل کرنے تک ہی محدود ہے۔’کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی ‘کے نام پر وزیراعظم سمیت حکومت کے تمام وزرا اور بی جے پی لیڈر ان نے صرف ’ دی کشمیر فائلس‘ فلم کی تشہیر کی اور اسے ٹیکس فری قراردے کر فلم ساز کی دولت میں اضافہ کیا ہے۔کشمیری پنڈتوں کے تعلق سے حکومت اگر واقعی ہمدرد ہوتی، ان کی گھر واپسی کا انتظام کیاجاتا لیکن اس کے برعکس کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت ہورہی ہے۔ چند یوم قبل ہی راہل بھٹ نام کے ایک کشمیری پنڈت کا قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد اس کی بیوہ نے جس ردعمل کااظہار کیا ہے، اس سے حکومت کی کشمیر پالیسی کی ناکامی ہی ظاہر ہوتی ہے۔ راہل بھٹ کی بیوہ کا کہنا ہے کہ کشمیر کے حالات بہت خراب ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کی کوئی حفاظت نہیں ہے۔ انہیں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ راہل بھٹ کی اہلیہ میناکشی بھٹ کا کہنا ہے کہ کشمیری پنڈت وادی میں محفوظ نہیں ہیں۔ کل راہل کی باری تھی، اب کسی اور کی باری آئے گی۔ اگر حکومت کے ذمہ دار لوگ عام لوگوں کے درد اور تکلیف کو محسوس کرنے کی حس رکھتے ہیں تو انہیں راہل بھٹ کے اہل خانہ اور وادی میں رہنے والے دوسرے کشمیری پنڈتوں کی آوازوں کو سننا چاہیے۔لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ بی جے پی یہ آواز سن پائے گی کیوں کہ اس کی پوری توجہ ابھی جموں و کشمیر کے اقتدار پر ہے۔ حال ہی میں حد بندی کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ پیش کی ہے اور اندازہ ہے کہ سیٹوں کا تعین ان کے مطابق ہوجانے کے بعد اب بی جے پی وہاں الیکشن کا اعلان کروا سکتی ہے۔ویسے بھی گزشتہ 6برسوں سے کشمیر میں بی جے پی ہی حکمراں ہے، پہلے صدر راج رہا پھر گورنر نامزد کرکے مرکز نے اپنی حکمرانی قائم رکھی ہے۔
5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹانے کے ساتھ ہی لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا گیا اور دونوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس سے جموں و کشمیر میں امن، استحکام اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ لیکن وعدے اور دعویٰ کے مطابق ترقی کا کوئی کام نہیں ہوا۔ نہ تو ریاست میں زندگی معمول پرآسکی اور نہ ہی ترقی کا کوئی نیا باب لکھاگیا، اس کے برعکس بجٹ میں کٹوتی کرکے موجودہ ترقیاتی اسکیموں کے نفاذ میں بھی روڑے اٹکائے گئے۔اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں 30فیصد کی کمی کردی گئی ہے، اسی طرح ریاست کے ثقافتی شعبہ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور پاور جنریشن کیلئے مختص رقم میں بھی بھاری کٹوتی کی ہے۔عوام کی ضروریات اور ان کی امنگوں کو نظرانداز کرکے حالات کو بہرحال بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
کشمیر میں اب بڑھتے دہشت گردانہ واقعات نے سیکورٹی اورسلامتی کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے جس کے حل کیلئے آج وزیرداخلہ نے دہلی میں حکام کے ساتھ میٹنگ کی۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اس میٹنگ میں بنائی گئی حکمت عملی کشمیر میں سیکورٹی اور سلامتی کے سنگین مسائل کا حل ثابت ہو۔ ورنہ اب تک تو حکومت کی کشمیر پالیسی ناکام ہی ثابت ہوتی آئی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS