غداری قانون دستور ہند اور عہد حاضر کی روح کے منافی

0

عبدالماجد نظامی

جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ اگر دستوری قدروں کی حفاظت میں عدلیہ چوکسی کا مظاہرہ کرے اور دستور میں جو خود مختاری اسے دی گئی ہے، اس کا استعمال مستعدی اور ذمہ داری کے ساتھ کرے تو مشکل حالات میں بھی فرد کی آزادی کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے اور اسٹیٹ کو مطلق العنان بننے یا پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ غداری قانون سے متعلق سپریم کورٹ کی جو حالیہ ہدایات مرکزی حکومت کو دی گئی ہیں، ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ فرد کی آزادی کی راہیں ابھی اس ملک میں پورے طور پر مسدود نہیں ہوئی ہیں اور عدالتیں جمہوری قدروں کی حفاظت میں کوتاہی سے کام نہیں لے رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کو غور سے پڑھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل جج صاحبان خود بھی غداری قانون کو ختم کرنے کی حمایت کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن فی الحال انہوں نے ایسا حکم جاری نہیں کیا ہے بلکہ وقتی طور پر اس پر عمل در آمد کو معطل کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ 124A کے تحت جتنے بھی مقدمات چل رہے ہیں یا ان پر اپیل اور کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، ان کو معرض التوا میں رکھا جائے۔ اس حکم کے مثبت اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کئی قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بڑی راحت ملے گی جو تعزیرات ہند کی دفعہ124Aکو ختم کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ اس استعماری عہد کے قانون کی روشنی میں ہر وہ تقریر، تحریر یا نمائندگی جرم کے دائرہ میں داخل کر دی جاتی ہے جس سے سرکار کے تئیں عدم وفا کا اشارہ ملتا ہو۔ سپریم کورٹ نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ مرکزی یا ریاستی سرکاریں 124A کے تحت کوئی بھی نیا مقدمہ درج کرنے سے باز رہیں گی، ساتھ ہی جو مقدمے درج ہو چکے ہیں ان پرتفتیش اور چھان بین کے سلسلہ کو موقوف کریں گی۔ کسی بھی قسم کے جبر کا استعمال کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ بھی انہیں دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جو امید ظاہر کی ہے وہ بے وجہ نہیں ہے۔ خود مرکزی سرکار نے کورٹ کو یہ بتایا تھا کہ اس نے غداری قانون پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ازسر نو اس پر غور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وزیراعظم کی منشا کے مطابق اس میں مناسب تبدیلی کی جائے۔دراصل ’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ کے تحت ہندوستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر جب وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کو خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ ملک کو اس بات کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سامراجی عہد کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرے اور ان قوانین سے بھی پیچھا چھڑائے جو موجودہ وقت کے ساتھ میل نہیں کھاتے ہیں تو یہ امید بندھی تھی کہ غداری قانون کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ ہم جانتے ہیں کہ1870میں برطانوی سامراج کے ذریعہ نافذ کیا جانے والا غداری قانون بالخصوص اس کا سیکشن 124A فرد کی آزادی کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔ انگریزوں نے اس قانون کو مجاہدین آزادی پر نکیل کسنے کے لیے نافذ کیا تھا اور اسی لیے استعماری طاقت سے نجات کے لیے فطری تقاضہ تھا کہ اسے کالعدم قرار دیا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ البتہ اس قانون کے خلاف آوازیں ہمیشہ بلند ہوتی رہیں اور ان آوازوں کا اثر بھی نظر آیا۔ سپریم کورٹ نے اس بات کو بہت پہلے محسوس کیا تھا کہ غداری کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے اور اسی لیے 1962 میں سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے اس قانون کے استعمال کے دائرے طے کر دیے تھے اور واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ غداری کا قانون کن حالات میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے غداری قانون سے متعلق سیکشن124A کو ختم تو نہیں کیا تھا لیکن یہ بتایا تھا کہ اس کا استعمال تبھی کیا جائے گا جب کوئی شخص ’تشدد کے لیے اکسائے‘ یا ’تشدد کے ذریعہ جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کو ہٹائے‘۔ سپریم کورٹ کی اس واضح تشریح کے باوجود عملی طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ پولیس نے اس قانون کا ہمیشہ غلط استعمال کیا ہے اور برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کی خاطر ان لوگوں کو گرفتار کرنے اور ان پر غداری قانون لگانے میں بالکل توقف نہیں کیا ہے جنہوں نے سرکار کی پالیسیوں کی تنقید سخت الفاظ میں کی ہو۔ حالیہ حکم جاری کرتے وقت غالباً سپریم کورٹ کو اس بات کا اندازہ تھا کہ سرکاروں اور سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے قانون کی حدود کو پار کر جانے والے پولیس افسران کے لیے صرف اتنا حکم کافی نہیں ہوگا کہ غداری کا کوئی نیا مقدمہ اس قانونی شق کے تحت درج نہ کیا جائے، اس لیے کورٹ نے متاثرین کو مزید راحت دیتے ہوئے یہ کہا کہ اگر کسی کے خلاف غداری کا کوئی نیا مقدمہ درج ہوتا ہے تو ایسے شخص کو پوری آزادی ہے کہ وہ عدالتوں سے رجوع کرے اور سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نیز مرکزی سرکار کے موقف کو اپنی حمایت میں پیش کرے اور راحت حاصل کرے۔ اس حکم کی روشنی میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اتنے مضبوط انداز میں جو پیغام ملک کی سب سے اونچی عدالت کی جانب سے دیا جا رہا ہے، اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے غداری قانون کا غلط استعمال بند ہوگا اور سرکار کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرنے والوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ رکے گا، ساتھ ہی فرد کی آزادی کو جمہوریت میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس قانون کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے، اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں مرکزی سرکار کی نمائندگی کرنے والے وکیل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ قانون عہد حاضر کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے بھی کورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ سرکار بھی بظاہر کورٹ کی رائے سے اتفاق رکھتی ہے اور بنیادی طور پر یہ سمجھتی ہے کہ یہ قانون بہت پہلے اپنا وقت پورا کرچکا ہے یعنی اس کے لیے وہی عہد مناسب تھا جب یہ ملک استعماریت کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ لبرل ڈیموکریسی کے اصولوں پر مبنی ایک آزاد اور ترقی پسند ملک کے مزاج کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ساری باتیں اس تناظر میں ہو رہی ہیں جب کہ سپریم کورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ تیرہ ہزار لوگوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ سپریم کورٹ 1962کی دستوری بنچ کے فیصلہ کو بدل کر 124A کو غیر دستوری قرار دے کر اس کو ختم کر دے گا یا سرکار خود ہی اس میں مناسب ترمیم کرکے اس قانون کو ملک کی سالمیت کے تحفظ تک محدود کر دے گی؟ ان باتوں پر مزید روشنی تب پڑے گی جب جولائی کے تیسرے ہفتہ میں اس پر دوبارہ بحث شروع ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو جن حضرات نے اس قانون کو ختم کرنے کے لیے پٹیشن داخل کی ہے اور جن کی نمائندگی کورٹ میں کپل سبل اور ان کے موقر رفقاء کار کر رہے ہیں، ان کی بڑی جیت ہوگی اور یہ اس ملک میں فرد کی آزادی کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS