ملک میں گزشتہ8، 10برسوں کے دوران اس تیزی سے تبدیلی آئی ہے کہ سب کچھ بدل گیاہے۔جن حکمرانوں کے ذمہ قانون کی حکمرانی اورامن و امان کاقیام تھا، وہ آج ملک میں ابتری، انارکی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول بنارہے ہیں۔حکمرانوں کا احتساب کرنے والا میڈیا بھی آج حزب اختلاف سے ہی سوال پوچھ رہاہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، معاشی ابتری، نظم و نسق کی بدتری، خواتین کی عصمت ریزی، اقلیتوں اوردلتوں کے حقوق کی پامالی جیسے سنگین اور سلگتے ہوئے مسائل پر حکمراں طبقہ بالکل ہی خاموش ہے۔ تبدیلی کے اس ماحول میں حزب اختلاف کے ایک حالیہ مکتوب نے ہلچل پیدا کردی ہے۔ یہ مکتوب حزب اختلاف کے ایک درجن لیڈروں کی جانب سے مشترکہ طور پر وزیراعظم نریندر مودی کو لکھا گیا ہے۔اس مکتوب میںجہاں ملک میںہونے والے حالیہ فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت آمیز تقاریر سے متعلق واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کی خاموشی پر سوال اٹھایاگیا ہے، وہیں عوام سے امن و ہم آہنگی بنائے رکھنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ حزب اختلاف نے اپنے مکتوب میں حکمراں جماعت پر یہ سنگین الزام بھی لگایا ہے کہ وہ مذہب، تہوار،رسوم و رواج، خورد ونوش، پوشاک اور زبان جیسے موضوعات کا استعمال کرکے معاشرہ میں صف بندی کررہی ہے۔ اپیل نما اس مکتوب پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن، جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین، سی پی آئی کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، سی پی آئی رہنما ڈی راجہ، جے ایم ایم کے ایگزیکٹیوصدر ہیمنت سورین، نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، راشٹریہ جنتادل کے رہنما تیجسوی یادو، آل انڈیا فارورڈ بلاک کے جنرل سکریٹری ڈی وشواس، ریولیوشنری پارٹی کے جنرل سکریٹری منوج بھٹاچاریہ، آئی یو ایم ایل کے جنرل سکریٹری پی کے کُنہل کٹی اور سی پی آئی(ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ کے دستخط ہیں۔ا ن رہنمائوں نے ملک کی کئی ریاستوں میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کی شدید مذمت کی ہے اوراس دکھ کا اظہار کیا ہے کہ معاشرے میں نفرت پھیلانے کیلئے سوشل میڈیا اور آڈیو ویژول پلیٹ فارمز کا سرکاری سرپرستی میں غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔نیز معاشرے میں اشتعال پیداکرنے اور عوام کو بھڑکانے والے جنونی لوگوں کے بیانات اور قول و فعل پر وزیراعظم کی خاموشی کو حیران کن بتایاگیا ہے۔ان رہنمائوں کاکہنا ہے کہ اپنے اشتعال انگیز اور زہر آلودبیانات سے ملک میں سخت گیری، شدت پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف وزیراعظم کی خاموشی اس بات کا حقیقی ثبوت ہے کہ اس طرح کے شر پسند عناصر اور ’ مسلح بھیڑ ‘ کو سرکاری تحفظ حاصل ہے۔ان رہنمائوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ سماج اور معاشر ہ میں پھوٹ ڈالنے والے ان زہریلے نظریات کے خلاف وہ اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی عوام الناس سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک میں امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے متحدہوکر سامنے آئیں۔
75سال کی تاریخ میں جب بھی فرقہ واریت بڑھی ہے اورا من وامان کا دامن تار تار ہوا ہے، حکمراں جماعت نے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ا من وا مان کے قیام کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اپیلیں بھی اب تک حکومت کی جانب سے ہی جاری ہوتی رہی ہیں لیکن 8،10برسوں کے دوران ملک اس مقام پر پہنچ گیا ہے اور ایسی تبدیلی آگئی ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری کیلئے جوکام حکمراں جماعت کو کرنا چاہیے تھاوہ حزب اختلاف کررہاہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ کئی کوششوں کے باوجود بھی گزشتہ 8برسوں میں بی جے پی کے خلاف کوئی مضبوط اپوزیشن اتحاد نہیں بن سکا ہے لیکن ملک کے اس بگڑتے ماحول اورفرقہ وارانہ جنون کی اس بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کیلئے حزب اختلاف کا متحد ہونا نیک فال سمجھاجاناچاہیے۔ اس کے ساتھ ہی امید بھی کی جانی چاہیے کہ آنے والے 2024 کے عام انتخاب سے قبل حزب اختلاف بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف متحد ہوکر ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گا۔ یہ امید اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس مکتوب کے فوراً بعد ہی مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے غیر بی جے پی وزرائے اعلیٰ کو بھی پھر خط لکھا ہے اوراپوزیشن اتحاد کے پرانے ایجنڈے پر بات چیت کی دعوت دی ہے۔سیاسی گلیاروں میں یہ خبر بھی گشت کررہی ہے کہ اس معاملے میں غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا ممبئی میں جلد ہی ایک اجلاس بھی ہونے والا ہے۔ ایک مضبوط اور متحد حزب اختلاف آج ملک کی شدید ضرورت بن گیا ہے۔امید یہی کی جانی چاہیے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے پر حزب اختلاف کا مشترکہ مکتوب مستقبل میں اپوزیشن اتحاد کی حقیقی شکل لے گا۔
[email protected]
حزب اختلاف کی پیش قدمی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS