ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
جمعہ کے دن نماز فجر کے وقت جب ہزاروں کی تعداد میں مسلمان قبلۂ اول میں عبادت الہٰی کے لیے جمع تھے تبھی اسرائیلی پولیس نے نمازیوں پر دھاوا بول دیا۔ مسجد اقصیٰ کی حرمت کو پامال کیا اور فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے مطابق 152 فلسطینیوں کو زخمی کرنے کے علاوہ دسیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مسجد اقصیٰ سے 152 زخمیوں کو اٹھاکر اسپتال میں داخل کروایا جہاں وہ زیر علاج ہیں۔ صہیونی پولیس نے فلسطینیوں کو ربڑ کی گولیوں، صوتی بم اور سخت مار پیٹ کے ذریعے زخمی کیا تھا۔ اسرائیلی پولیس نے گرچہ اپنے اس قابل مذمت عمل کا دفاع کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کی ہے کہ کئی لوگ ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے اور بعد میں انہوں نے مسجد اقصیٰ میں خود کو بند کر لیا تھا، اس لیے انہیں مسجد میں داخل ہوکر کارروائی کرنی پڑی۔ اس الزام کو قابل یقین بنانے کے لیے اسرائیلی پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے تین اہلکار فلسطینیوں کے ذریعے کی گئی سنگ باری میں معمولی طور پر زخمی ہوگئے۔ البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا کہ سیکڑوں فلسطینیوں کو انہوں نے گرفتار کرلیا ہے۔ مسجد اقصیٰ میں موجود چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ صہیونی پولیس دندناتی ہوئی مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئی، نمازیوں کو دوڑایا اور ان کو سختی کے ساتھ پیٹ پیٹ کر زخمی کر دیا۔ ساتھ ہی قبلۂ اول کے صحن میں ربڑ کی گولیوں اور صوتی بم کی بوچھاڑ سے خوف و دہشت کا ماحول قائم کر دیا۔ چشم دید گواہوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ مسجد اقصیٰ میں گھسنے کے بعد اسرائیلی پولیس دسیوں نمازیوں کو نماز گاہ سے گرفتار کرکے لے گئی۔ اس سے اتنی بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیلی پولیس جنہیں دنگائی اور بلوائی قرار دے رہی ہے وہ دراصل عبادت کے لیے موجود نمازی حضرات تھے جن کا کسی بھی قسم کے شر و فساد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہاں اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ رمضان کے آغاز کے اول دن سے ہی صہیونی عناصر مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی میں روز بروز اضافہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کنیست (Knesset) کا ایک انتہا پسند ممبر اپنے حامیوں کے ساتھ پولیس کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ میں گھس آیا تھا جس کی وجہ سے تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ جمعہ کے دن کا واقعہ بھی اچانک وقوع پذیر نہیں ہوا ہے بلکہ برسوں سے مسجد اقصیٰ کو یہودیت کے رنگ میں رنگنے کی صہیونی سازش کا ایک حصہ ہے۔ جمعہ کے دن سے ہی یہودیوں کا تہوار جسے عید الفصح کہا جاتا ہے اس کا آغاز ہوا ہے اور ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔ اس موقع کا استعمال کرکے ہر سال صہیونی عناصر مسجد اقصیٰ میں گھس آتے ہیں اور اس کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقدس کی اس پامالی میں اسرائیلی پولیس کا پورا تعاون انہیں حاصل ہوتا ہے اور جب فلسطینی اپنے مذہبی مقامات و شعائر اور قبلۂ اول کے ساتھ ہو رہی بدتمیزی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں ہی مورد الزام ٹھہراکر بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیتے ہیں۔
فلسطینی مسلمان جنہیں اسرائیل کے ناپاک ارادوں اور صہیونیوں کی کارستانیوں کا پورا تجربہ ہے وہ اس بات سے یقینا واقف رہے ہوں گے کہ عید الفصح کا استعمال اس بار بھی مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کیا جائے گا، اس لیے ہزاروں کی تعداد میں مصلیان مسجد میں فجر کی نماز کے لیے موجود تھے۔ ان میں ایسے لوگوں کی بھی خاصی تعداد تھی جو رات کو مسجد ہی میں رہ کر مشغول عبادت رہے تھے۔ البتہ اسرائیلی پولیس نے اس پورے واقعے کو ایسا رنگ دے دیا گویا امن و امان کو خطرہ لاحق ہو۔ صہیونی پولیس نے یہ دعویٰ کیا کہ فجر کے وقت تقریباً چار بجے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کئی لوگ جن میں سے بعض اپنا چہرہ بھی چھپائے ہوئے تھے انہوں نے حرم مقدس کے صحن میں جلوس نکالنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے ہاتھ میں حماس اور فلسطینی اتھارٹی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ اسرائیلی پولیس کے مطابق انہوں نے ہوا میں پٹاخے چھوڑے اور سنگ باری بھی کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب ہنگامہ بازوں نے دیوار براق، جس کو یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں، کی جانب خشت باری شروع کر دی اور ان کا شور و غوغا بڑھتا ہی گیا تو مجبوراً اسرائیلی پولیس کو مسجد اقصیٰ کے صحن میں گھسنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے صرف قانون کی خلاف ورزی کرنے والے انتہا پسندوں کو ہی بکھیرنے کے لیے اپنی کارروائی کی جبکہ دیگر مصلیوں کو امن و امان کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی تھی۔ البتہ فلسطینی چشم دید گواہان اس بیان کو مسترد کرتے ہیں جیسا کہ چشم دید گواہان کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اس پورے واقعے پر اسرائیل کے وزیر اعظم کا جو ردعمل سامنے آیا ہے اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صہیونی آبادکاروں کو خوش کرنے کے لیے بیان دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم حرم شریف اور اسرائیل کے باقی تمام حصوں میں معاملے کو پرسکون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ہر طرح کے سیناریو کے لیے تیار ہیں اور سیکورٹی فورس ہر مشن کے لیے مستعد ہے۔ اس بیان میں دھمکی کے مخفی اشارے کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل اسرائیلی وزیر اعظم بینیت ان دنوں سخت مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس کے برے نتائج سے بچنے کے لیے فلسطینیوں کو بطور سامان دفاع استعمال کر رہے ہیں۔ دراصل ان کی سرکار پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور صرف ایک مزید ممبر اپوزیشن کے خیمے میں چلا جائے تو ان کی حکومت گر جائے گی۔ ایسے میں لیکوڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو جن کا دباؤ لگاتار بینیت کی حکومت پر بڑھ رہا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بینیت خود کونیتن یاہو سے زیادہ مضبوط فلسطین مخالف خیمے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی دوسری مجبوری یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی عرب پارٹیاں بھی ان کے ساتھ حکومت میں شامل ہیں اور ان کی حمایت کے بغیر حکومت کا چل پانا ناممکن ہے۔ مزید مشکل یہ ہے کہ عرب پارٹیوں کے لیڈران نے اسرائیل کی فوج میں شامل عرب سپاہیوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں پر گولیاں نہ چلائیں۔ گویا ایک عجیب سی صوتحال ہے جس میں بینیت کی حکومت پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن انہیں معلوم ہے کہ فلسطینیوں کے تئیں کسی بھی قسم کا نرم رویہ ان کے پورے سیاسی کریئر کو نقصان پہنچا دے گا، اس لیے اس کی قیمت فلسطینیوں سے ان کی جان اور ان کے دینی شعائر کی پامالی کی شکل میں وصول کر رہے ہیں۔ فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے اپنے بیان میں اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں اور اسرائیل کے ذریعے مقدس مقامات کی حرمت کی پامالی کو روکیں ورنہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا، کیونکہ ان کے بقول اسرائیل کی یہ حرکت فلسطینی عوام کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ فلسطین کی وزارت اوقاف نے بھی کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جو بے حرمتی ہوئی ہے اس سے مذہبی جنگ چھڑ جانے کا اشارہ ملتا ہے۔ فلسطین کے تمام قائدین اس معاملے میں بیک آواز یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی میں تبدیل کرنے کی جو صہیونی سازش ہے اس کو وہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے خواہ اس کے لیے جو قیمت بھی چکانی پڑے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر عرب اور مسلم ممالک نے بھی اسرائیل کی سخت تنقید کی ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں اور ہر میدان میں ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے ذریعے اسرائیل کی مذمت کے الفاظ کتنے کھوکھلے ہیں اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قبلۂ اول کے دفاع میں صرف فلسطینی مسلمان ہی اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور پوری مسلم ملت کی جانب سے دینی و ایمانی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی گردنیں فلسطینیوں کی شجاعت ایمانی کے احسان کے زیر بار ہیں۔ ایسے میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرکے مسئلۂ فلسطین کے عادلانہ حل پر زور دے تاکہ قبلۂ اول کو پھر کبھی صہیونی عناصر کے ہاتھوں بے حرمتی کا شکار نہ ہونا پڑے۔ جہاں تک فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی برادری کی جانب سے کسی منصفانہ اقدام کا تعلق ہے تو یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ اسلامی ممالک اپنے محدود منافع کے خول سے نکل کر ایک وسیع اور متحد امت کے طور پر کام کرنا شروع نہ کر دیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں