ہندوستان میں کووڈ19-کے بعد خودکشی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ سامنے آیاہے۔اس معاملہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق جو خودکشی سے اموات ہورہی ہیں وہ قتل اور حادثہ جاتی اموات سے زیادہ ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کون سی ایجنسی یاادارے خودکشی کے واقعات کو کم کرنے میں تعاون دے سکتے ہیں۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کاایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عام آدمی یا اداروں کی اس طرف دلچسپی نہیں ہے اور عوام میںاس بابت بے حسی پائی جاتی ہے۔لیکن ماہرین کا کہناہے کہ خودکشی کے واقعات کے پس پشت آدمی کی ذہنی صحت ہے اگر آدمی دماغی طور پر مستحکم اور صحت مند ہوگا تو حالات سے نمٹنے میں اس کو زیادہ دقت پیش نہیںآتی۔جونئے اعداد وشمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق طلبا ، عمر درازاور فوج ونیم فوجی دستوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبا ذہنی دبائو میں رہتے ہیں اور یہی صورتحال عمررسیدہ لوگوں میں ہے۔ فوجی اور نیم فوجی دستوں کا جہاں تک تعلق ہے یہ طبقہ انتہائی مشکل اور دبائو میں کام کرتاہے، ذہنی اور جسمانی دبائو کی وجہ سے فوجی اور نیم فوجی دستوں میں بے اطمینانی اور مایوسی کا رجحان پایاجاتاہے۔اگر چہ حکومت ہند نے 2017میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے مینٹل ہیلتھ ایکٹ پاس کیاتھا ، مگر محض ایک قانون کے ذریعہ اتنے سنگین مسئلہ پر قابو پاناممکن نہیں ہے ، اس کے لئے ہمہ جہتی اقدامات درکار ہیں۔ نوجوان اور سماج کا خوشحال طبقہ اس دبائو سے نمٹنے کے لئے ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہوجاتاہے جو اس سنگین مسئلے کو دوسرے سنگین مرحلے تک پہنچانے کا سب پنپتے ہیں۔ مثلاً کچھ نوجوان نشیلی ادویات لینے لگتے ہیں اور ڈپریشن اور مایوسی سے نمٹنے کے لئے شراب نوشی وغیر ہ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ 2020میں خودکشی کے رجحان کے اعدادوشمارسب سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ ہوگئے تھے،یہ اعداد وشمار نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں نفسیاتی طور پر نوجوانوں اور مایوسی کے شکار لوگوں کی مدد کے لئے ماہرنفسیات یا کونسلروں کی کوئی مدد نہیں ملتی اور اسی بحران میں مریض بدترین اور انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ایک خاص طبقہ نفسیاتی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے ماہرین سے رجوع کررہاہے ، مگر یہ تبدیلی ایک مخصوص اور محدود طبقے تک ہی خاص ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اس بحران کاحل تلاش کرنے کے لئے ماہرین نفسیات سے رجوع کرتاہے اور ذہنی مایوسی یا کمزوری کو جسمانی کمزوری یا معذوری کی طرح سنجیدگی سے لے پاتا ہے جبکہ عوام میں ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کارجحان صفر ہے۔
2020کی رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ خودکشی سے ہونے والی اموات میںکافی اضافہ ہوا ہے۔جنوری سے دسمبر2020کے درمیان ہندوستان میں خودکشی سے ہونے والی اموات کی تعداد میں 153.050تھی۔یہ 1967 سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔خیا ل رہے کہ ہندوستان کے پاس 1967سے پہلے کے اعداد وشمار نہیں ہے۔2019میں خودکشی کی اموات میںیہ اضافہ 10فیصد تھا۔این سی آر بی کا کہناہے کہ ایک لاکھ میں 11.3 اموات 2020میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔یہ اضافہ 2010کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ماہرین کاکہناہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے سماجی سرگرمیوں اور ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ کم ہونے کی وجہ سے عام شہری میں مایوسی کافی بڑھی ہے۔اے ڈی ایس آئی کا کہناہے کہ خودکشی کی اموات میں 7فیصد سے لے کر 8فیصد طلباہوتے ہیں۔ 2020میں خودکشی کرنے والے طلبا کی بڑھ کر21.2 ہوگئی۔اس کے بعد پیشہ وریا تنخواہ پانے والوں میں خودکشی کی اموات کی شرح 16.5ہے ۔جبکہ روزمرہ مزدوری کرکے کمانے والوںمیںخودکشی کرنے والوں کی تعداد15.7 فیصد ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ چھوٹے کام کرنے والے یا تجارت کرنے والے زیادہ خودکشی کرتے ہیں بمقابلہ تنخوانہ پانے والے پیشہ ورافراد کے،چھوٹے چھوٹے کام کرکے پیٹ پالنے والوں میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد26.1فیصد تھی، جبکہ تاجروں میں یہ اعداد وشمار 49.9ہے۔ خیال رہے کہ چھوٹے موٹے دھندہ کرنے والے اور تجارت پیشہ افراد کا شمار خودکفیل افراد میں ہوتاہے۔ اس زمرہ میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 7.8 فیصد ہوگئی۔
خودکشی کی اموات میں اضافہ تشویشناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS