خواجہ عبدالمنتقم
روس اور یوکرین کے مابین حالیہ تصادم اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ دو پڑوسی ممالک کے مابین ناخوشگوار تعلقات اور اندرون ملک خانہ جنگی کتنی خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے اور سمجھدار قوم اور ملک وہی ہوتا ہے جو خود کو آگ میں جھونکنے کے بجائے ایسے واقعات سے سبق حاصل کرے۔ پرانی بات تو چھوڑیے خود 2021 میں اس طرح کے واقعات و سانحات میں مختلف ممالک میں معتبر ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق 15,55,799 افراد کی موت ہو چکی ہے۔اب یوکرین کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ اس صورت حال سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ ایک بڑا و طاقتور ملک چھوٹے و کمزور ملک کو بہت بھاری جانی و مالی نقصان تو پہنچا سکتا ہے لیکن خود اسے بھی بھاری قیمت چکانی پڑ تی ہے۔ دوسری جانب سے بھی پھولوں کی بارش نہیں ہوا کرتی۔ دوسرے یہ کہ اگر چھوٹے ملک کو بڑے ممالک کھلم کھلا یا پس پردہ ہر طرح کی امداد فراہم کرتے رہیں تو صور ت حال اور بھی زیادہ خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے اور اس دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے تک لے جا سکتی ہے۔ دریں صورت اگر دو ممالک کے مابین کوئی تنازع ہوتووہ تنازع آپس میں گفتگو کے ذریعہ طے ہونا چاہیے نہ کہ میدان جنگ میں۔
ہمارا ملک ہندوستان تو ہمیشہ اس بات پر زور دیتا رہا ہے اور اس بات کی وکالت بھی کرتا رہا ہے کہ دو ممالک کے مابین اگر کوئی تنازع ہوتووہ باہمی گفتگو کے ذریعہ حل کیا جانا چاہیے۔آئیے اب اس پس منظر میں ہم ہند-پاک و ہند- چین تعلقات کی بات کرتے ہیں جن میں نشیب وفراز آتے رہے ہیں،کبھی امید،کبھی مایوسی،کبھی خدشات۔کبھی کبھی ہمارا پڑوسی ملک چین ہمارے ملک کی حدود میں داخل ہوکر ہمارے کچھ علاقہ پر قبضہ کر لیتا ہے اورنوبت خونیں تصادم تک آجاتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نیوکلیائی جنگ کی بات کرتا رہتاہے جیسے کہ ہمارے پاس نیوکلیائی ہتھیار نہیں، کھلونے ہیں۔
آئیے اب ہند-پاک تعلقات کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں۔ کون اس تاریخی حقیقت کو نکار سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے درمیان تعلق میں صدیوں کی بقائے باہمی اور تعاون شامل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل اسی سرزمین پر فدائے حرم اور شیدائے صنم ایک طویل مدت سے ایک ساتھ رہتے چلے آرہے تھے اور ہمیشہ ایک دوسرے کے ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے۔ کبھی لڑے، کبھی ساتھ بیٹھے، کبھی دور ہوئے، کبھی ایک ہی غرض کے حصول کے لیے متحد ہوئے تو کبھی دیگر غرض کے لیے سینہ سپر، کبھی کسی معاملے میں ایک موقف اختیار کیا تو کبھی اختلافات کا شکار ہوئے مگر عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ’ کثرت میں وحدت‘ کے اصول کوسینے سے لگائے رکھا مگر تقسیم ہند کے بعد صورت حال بالکل بدل گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ کتنا خون بہہ چکاہے۔ کتنے معاہدے ہوچکے ہیںمگر دونوں ممالک کے تعلقات اکثر کشیدہ ہی رہے ہیں۔ Disaster Diplomacy (یعنی صرف ہنگامی حالات میں تعاون) نے ابھی تک دونوں کا پیچھا نہیں چھوڑا جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس طرح کی سفارتی حکمت عملی تیار کی جاتی کہ دونوں ممالک کے چہارطرفہ تعلقات کو فروغ ملتا، تجارت بڑھتی، عوام میں بہتر روابط پیدا ہوتے مگر ایسا نہیں ہوا۔
ان دونوں ممالک کے خوشگوار تعلقات دونوں کے لیے فائدے کی بات ہے۔ ذرا سوچئے کہ پاکستان چائے ہندوستان سے درآمد کرنے کے بجائے سری لنکا سے منگائے تو پاکستان کے عوام پر اس کا کتنابوجھ پڑے گا۔ اسی طرح بہت سی ایسی اشیا ہیں جو اگرپاکستان سے ہندوستان میں درآمد کی جائیں تو وہ یقینی طور پر ہندوستان میںسستے داموں پر دستیاب ہوںگی۔ اب نئی نسل کو نئے تقاضوں کے مطابق اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ ماضی کے بوجھ کے نیچے دبنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اب دونوں ممالک کو سرحدوں پر لڑنے کے بجائے غریبی، ناداری، جہالت، عدم مساوات، بدعنوانی، مذہبی ونسلی تشدد، ماحولیاتی عدم توازن، انتہا پسندی ودہشت گردی کے خلاف لڑنا ہوگا۔ ناخواندگی، فی کس آمدنی، بدعنوانی، ماحولیاتی آلودگی، صفائی کی درجہ بندی جیسے معاملوں میں یہ دونوں ممالک آج بھی ایک دوسرے سے قدم بہ قدم ملاکر چل رہے ہیں اور دونوں بین الاقوامی اعداد وشمار کے مطابق زمرۂ زیریں میں آتے ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ کچھ یرقانی نظریں صرف یہ دیکھ کر خوش ہوجاتی ہیںکہ ان میں سے کس ملک کا نام اوپر ہے اور کس کا نیچے۔
سرحد پر دراندازی، گولہ باری، زبانی جنگ یا دیگر جارحانہ کارروائی سے متذکرہ اہداف پورے نہیں ہوسکتے۔اگر یہی صورت حال رہی تو دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آنے کا امکان نہ کے برابر ہے حالانکہ دونوں ممالک دہشت گردانہ کارروائیوں کی مار جھیل رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم کشمیر، نارتھ ایسٹ، میانمار کی سرحد پر اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کا مقابلہ کر تے رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشنز ہوتے رہے ہیں۔
جہاں تک دونوں ممالک کے مابین گفت وشنید کی بات ہے یہ سلسلہ بہت پر انا ہے اور کبھی متلاطم ماحول میں، کبھی پرسکون حالات میں، کبھی شملہ کی برف پوش پہاڑیوں کے دامن میں، کبھی اسلام آباد کے پرفضا ماحول میں، کبھی سرحد کے اس پار تو کبھی اس پار، کبھی دور دراز براعظموں میں تو کبھی علاقائی وبین الاقوامی فورموں پر عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے۔ چند مثالیں یہ ہیں:
لیاقت-نہرو پیکٹ، کشمیر میں جنگ بندی کا معاہدہ، تاشقند معاہدہ، شملہ معاہدہ اور تجارت، اقلیتوں، نیوکلیائی تنصیبوں، خلائی امور، دہشت گردی، ویزا، موافق ملک کا درجہ دینے جیسے امور سے متعلق گفت و شنید یا معاہدے، کرکٹ ڈپلومیسی، واجپئی-نواز شریف ملاقات، واجپئی-مشرف ملاقات، مودی-نواز شریف ملاقات، بارہا وزرائے خارجہ وسکریٹریوں کی مختلف موقعوں پر ملاقاتیں، کشمیر مسئلے پر اقوام متحدہ میں کرشنا مینن اور سرظفراللہ خاں کی اپنے اپنے ملک کے حق میں لمبی لمبی پر دلائل بحث مگر برف نہیں پگھلی۔اب کھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک بغیر کسی فریق کو مورد الزام ٹھہرائے ان تمام عوامل کا پتہ لگائیں اور ان مسائل کا حل نکالیںجو امن اور سلامتی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہو ئے ہیں۔ آج کے عالمی سیاسی منظر نامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو بھلاکر مستقبل قریب میں ایک پائیدار دوستی کی بنیاد ڈالیں اور مثبت وصحت مند سفارتکاری و سیاستدانی کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محض مطلب براری، موقع شناسی اور جوڑ توڑ کو اپنا شیوہ نہ بنائیں۔ ان دونوں قوموں کی رگوں میں ایک ہی خون سرایت کرتا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کو جتنی اچھی طرح سمجھتی ہیں کوئی دوسری قوم انہیں اتنی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتی۔ اس لیے ان کے مسائل کے حل کے لیے ’شرکت غیرے‘ کا اصول کبھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ بصورت مجبوری بھی دونوں جانب سے جراحتی عمل کے مقابلے میں مصالحانہ و دل موہ لینے والے رویہ کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ رہی بات ہند- چین تعلقات کی تو اس ضمن میں ہندوستان نے تجارتی و دفاعی نقطۂ نظر سے ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کرنے کو ہی قرین مصلحت سمجھا ہے۔
ہم ہندوستانی،ہندوستان کی سبھی سرحدوں پر تعینات سپاہیوں کی آنکھوں میں خوف وخفگی کے بجائے وہ تاثیر پذیر کشش دیکھنا چاہتے ہیںجو ہمیں پر امن ممالک کی سرحدوں پر تعینات سپاہیوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]