مغربی بنگال میں سیاسی تشدد

0

سیاسی تشدد مغربی بنگال میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔سا بقہ بایاں محاذحکومت کا34سالہ عرصہ ہو یا ممتابنرجی کا دور حکمرانی سیاسی تشدد کے واقعات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔بلکہ کئی ایک معاملات میں تو یہ سیاسی تشدد بایاں محاذ کے عرصہ حکمرانی کو بھی شرمندہ کر رہا ہے۔ تازہ لرزہ خیر واقعہ بیربھوم کے رام پور ہاٹ میں پیش آیا ہے جہاں 12 افراد کو گھروں میں بند کرکے زندہ جلادیاگیا ہے۔ بادی النظر میں یہ واردات آتشزنی کی ہے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ مقامی پنچایت کے نائب پردھان کے قتل کا انتقام لینے کیلئے باقاعدہ سازش کے تحت گھروں میںآگ لگائی گئی۔ پولیس مہلوکین کی تعداد 8 بتارہی ہے جب کہ گائوں والے ایک درجن افراد کے جل کر ہلاک ہونے کی تصدیق کررہے ہیں،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس واردات کے جو مناظر سامنے آئے ہیں وہ انتہائی پریشان کن اور دہشت انگیز ہیں۔پولیس ملبہ کے اندر سے جلی ہوئی انسانی لاشوں کے ڈھانچے نکال رہی ہے۔لوگ اتنے دہشت زدہ ہیں کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہوںپر منتقل ہونے لگے ہیں۔ مقا می لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ رہے ہیں، پولیس نے انہیں کوئی تحفظ نہیں دیا اگر پولیس نے گائوں والوں کی حفاظت کی ہوتی تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔
ریاستی حکومت نے معاملہ کی تفتیش کیلئے ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے اور اپنے تین وزرا کی ایک ٹیم جائے واردات کا معائنہ کرنے کیلئے بھیجی ہے۔ وزیراعلیٰ ممتابنرجی خود بھی جمعرات کو رام پورہاٹ جانے والی ہیں۔ تاہم بنگال پولیس اس لرزہ خیز واقعہ کو سیاسی تشدد تسلیم کرنے سے انکار کررہی ہے۔ریاست کے ڈائریکٹر جنرل پولیس منوج مالویہ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہپیر کو ترنمول کانگریس پنچایت کے نائب سربراہ بھادو شیخ کی موت کے ایک گھنٹے کے اندر یہ واقعہ پیش آیا جس میں سات سے آٹھ گھروں میں آگ لگ گئی،مگر اس کا تعلق سیاست سے نہیں ہے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ کوئی ذاتی دشمنی ہو۔
اس واقعہ کا سیاست سے تعلق ہے یا نہیں، ابھی تواس کی تحقیقات ہورہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ مغربی بنگال میں تشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی ایک ہفتہ قبل ہی دو منتخب کونسلروں کا قتل کردیاگیا تھا جن میں سے ایک کا تعلق کانگریس اور دوسرے کا ترنمول کانگریس سے تھا۔ اضلاع سے بھی قتل کی خبریں تسلسل سے آتی رہی ہیں۔ابھی چند یوم قبل ہی ندیا ضلع کے راناگھاٹ میں ممبر پارلیمنٹ جگن ناتھ سرکار پر بم پھینکے جانے کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ یہ واقعات ریاست میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے عکاس ہیں لیکن حکومت اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اورایسے ہر واقعہ کو ذاتی دشمنی اور آپسی رقابت کے کھاتے میں ڈال کرا پنا دامن بچانے کی کوشش کرتی ہے۔حکومت ایسے واقعات پر حزب اختلاف کی ہرگرفت کو مبنی بر سیاست قرار دیتے ہوئے رد کر دیتی ہے۔
بیربھوم معاملہ میں بھی ممتاحکومت نے یہی رویہ اختیار کیا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ حکومت اس معاملہ کی منصفانہ تحقیقات، قصورواروں کی گرفتاری اورا نہیں سزایاب کرانے پر توجہ دیتی لیکن وہ حزب اختلاف کے الزامات کا جواب دینے میں لگ گئی ہے۔ ریاست کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کی جانب سے اس واقعہ کو بنگال میں تشدد اور جنگل راج سے تعبیر کیے جانے اوراس کی مذمت کیے جانے پروزیراعلیٰ ممتابنرجی نے انہیں تاکید کی ہے کہ وہ ’ نامناسب‘ بیان دینے سے پرہیز کریں۔ ریاست میںامن و امان کی صورتحال پر گورنر کے تبصرہ کے بعد ممتابنرجی نے باقاعد ہ انہیں خط لکھ کر کہا ہے کہ ان کے الفاظ اور بیانات میں سیاسی لہجہ ہے، جو حکومت کو دھمکی دینے جیسا ہے۔ دوسری طرف ریاست میں صدر راج نافذ کیے جانے کے بی جے پی کے مطالبہ کو بھی حکومت سیاست زدہ بتارہی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ گورنر اورحزب اختلاف کی تنقید میں سیاسی تیکھاپن اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی کارفرما ہو لیکن اس سے بہرحال انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ مغربی بنگال کے اضلا ع میں لاء اینڈ آرڈر ایسا نہیں ہے کہ عام انسان کو تحفظ کا احساس ہو۔گزشتہ سال ہونے والے اسمبلی انتخاب اوراس کے بعد بھی مہینوں تک چلے سیاسی تشدد میں کئی درجن افراد ہلاک ہوگئے تھے اور خوف کی وجہ سے ہزاروں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔ عدالت کی مداخلت کے بعد ان کی گھر واپسی کا انتظام کیاگیا لیکن اس کے بعد بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مارچ کا مہینہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے لیکن اس دوران 26 افراد کی جان چلی گئی ہے جن میں اسٹوڈنٹ لیڈرانیس الرحمن خان کا مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں قتل بھی شامل ہے۔انیس الرحمن قتل کیس کی تحقیقات کیلئے بھی حکومت نے ایس آئی ٹی تشکیل دے کر دو ہفتوں میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی لیکن اب تک رپورٹ نہیں آسکی ہے۔بیربھوم معاملہ میں بھی ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی رپورٹ کا بھی نہ جانے کب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ حکومت سیاسی بیانات میں الجھنے کے بجائے ریاست میں امن و امان بہتر بنانے پر توجہ دے اور سیاسی تشدد کے ایسے لرزہ خیز واقعات کے اعادہ کو روکنے کی کوشش کرے۔اس کیلئے صرف ایس آئی ٹی بنادینا کافی نہیں ہوگا بلکہ ان واقعات کو روکنے کیلئے حکومت کو سیاسی وابستگی کے تنگ دائرہ سے بھی نکلنا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS