کوئی نہیں جو ہم کو جگائے جھنجھوڑ کے

0

زین شمسی

زیادہ نہیں دو باتیں کروں گا اور وہ بھی اس لیے کہ ان دو ایشو پر گزشتہ دو ہفتہ سے باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک کی آنچ تو ذراکم ہو گئی ہے، لیکن دوسری لہر ترنگ بن کر معاشرہ پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ دونوں معاملات اقلیت خاص کر مسلمانوں سے منسلک ہیں اور آج کل مسلمانوں سے متعلق کوئی بھی بات ہوگی اس کا مارکیٹ بھائو آسمان چھوئے گا۔ پہلا معاملہ تواسکولوں میں حجاب کا ہے، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی بازگشت سنائی دی ہے، یہ اسی طرح کا معاملہ بن گیا ہے، جیسا بابری مسجد کا تھا، لوگوں کو امید تھی، مگر امید ٹوٹ گئی۔ موجودہ سرکار مسلمانوں سے متعلق کوئی بھی ایشو یوں نہیں اٹھاتی، وہ سب سے پہلے اس کے امیدو بیم کا سروے کرتی ہے اور بہت پہلے سے اس ایجنڈے پر کام کر رہی ہوتی ہے، ہمیں اور آپ کو اس کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ ایکدم سے ہمارے سامنے آ موجود ہوتی ہے۔ حجاب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جیسے مسلم مرد وں کی شناخت داڑھی سے ہے تو مسلم عورتوں کی حجاب سے۔ یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ اپنے ہی دیش میں کئی ایسے شرمناک واقعات ہو چکے ہیں، جس میں مسلمانوں کی داڑھی کی بے حرمتی کی گئی ہے اور باضابطہ طور پر قانون اور آئین میں دیے گئے حقوق کو پامال کیا گیا ہے، مگر اس پر نہ صرف انتظامیہ بلکہ مقننہ نے بھی لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ داڑھی، ٹوپی، مسجد، نماز،اذان اور مسلم شریعہ کے کئی سائبان پر نفرت کے سائے منڈلاتے رہے ہیں۔ تین طلاق کو مسلم عورتوں کے ساتھ انصاف کا بکھان کرنے والی حکومت پرانہیں مسلم لڑکیوں کے سر پر حجاب برداشت نہیں ہو پارہا ہے۔ گویا ووٹ اور اقتدار کی ہوس میں بھارتیہ مسلمانوں پر جارحانہ کارروائی کا چلن اتنا بڑھ جائے گا، شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا، خیر وقت کبھی ایک سا نہیں ہوتا اور نہ ہی ظلم کی عمر دائمی ہوتی ہے، مگر جوکچھ ہو چکا ہے،جو کچھ ہورہا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے، اس پر مسلمانوں کی آنکھیں بھی آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔
حجاب کے معاملے میں کئی مضامین پڑھنے کو ملے، فیس بک پر بھی کئی مشورے سامنے آئے اور کانفرنس و سمیناروں میں کئی باتیں سامنے آئیں، لیکن ایک بات سب جگہ سنائی دی کہ اگر مسلمانوں کے پاس بھی اپنے اسکول ہوتے جو مین اسٹریم اسکولوں کی برابری کر سکتے تھے تو یہ ہنگامہ کھڑا ہی نہیں ہوپاتا۔ایسی آوازیں وہاں سے اٹھ رہی ہیں جو مدارس کی اہمیت و افادیت کو مانتے ہوئے عصری تعلیم کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔وہ لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بہت ہوگیا مدرسہ اب اسکول بنائو۔ تاہم ان کا یہ مشورہ جارح رخ اپناتا ہوا نظر آتا ہے۔ مدارس کا اپنا کام ہے اور اسکولوں کا اپنا۔ دراصل قوم میں یہ بات سرایت کر گئی ہے کہ مدارس کے لیے چندہ دینا ثواب کا کام ہے، جبکہ اسکول کے لیے چندہ دنیاوی تقاضے کے زمرہ میں آتے ہیں۔ مسلمانوں میںیہ بات پتہ نہیں کیسے گھر کر گئی ہے کہ اسکولوں کی تعمیر کے لیے چندہ دینا دینی کام نہیں ہے، یہ سراسر دنیاوی عمل ہے اور آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو انہی باتوں سے دلچسپی ہے، جس سے ان کی عاقبت سنورتی ہو۔ عاقبت کی فکر میں دنیا بھی ہاتھ سے جاتی رہے تو اس کی پروا نہیں۔ جس طرح مسلمان قرآن شریف سمجھنے کے لیے نہیں، اس پر عمل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ثواب کے لیے پڑھتے ہیں، اسی طرح مدرسوں کی تعمیر میں تعاون بھی ثواب کے لیے کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے عصری تعلیم کا کمزور ہوجانافطری ہے۔ اب جبکہ حجاب کے سلسلہ میں یہ بات اٹھی ہے تو اس پر بھی بات ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس اچھے اسکول ہونے چاہئیں، لیکن ایسے اسکول بنائے گا کون؟ مسلمانوں میں اڈانی، امبانی، ٹاٹا اور برلا کو تلاش نہیں کیا جاسکتا تو پھر سرسید اسٹائل ہی ایک متبادل ہے، مگر سرسید تحریک کو بھی ختم ہوئے برسوں ہوگئے۔پھر بھی بات نکلی ہے، اسے بہت پہلے نکل جانا چاہیے تھا، لیکن کہتے ہیں نا کہ جب مسلمانوں پر باہری طاقتیں یلغار کرتی ہیں تب ان کے دماغ کی نسیں کام کرتی ہیں، لیکن اس سلسلے میں یہ بات بھی درست ہے کہ جب ہماری ساری چیزیں چھین لی جائیں گی تو کیا ہم اپنی ساری چیزیں خود سے بنانے لگیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ بالکل نہیں، تو ہم اپنا حق بھی مانگتے رہیں اور اپنی بنیادیں بھی مضبوط کرتے رہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔
دوسرا ایشو کشمیر فائلس کا ہے، جس کے سامنے تمام فلمیں سرنگوں ہو چکی ہیں۔کشمیری پنڈتوں کے درد کے بہانے اس فلم نے کشمیریوں سمیت تمام مسلمانوں پر نفرت کی مہر ثبت کر دی ہے۔ ممکن ہے کہ 200کروڑ کمانے کے بعد یہ فلم آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوجائے۔ ملک کے کئی بڑے بڑے لیڈران فلموں کے ذریعہ حقیقت بیان کرنے کا انٹرویو دے چکے ہیں۔ فلمی شائقین فلموں کو سچ مانتے آئے ہیں، اسی لیے بالی ووڈ کے جاہل گنوار اداکاروں کے کروڑوں فین ہوتے ہیں۔ پروفیسروں کو اس کے طلبا کوئی بھائو نہیں دیتے، لیکن اداکاروں کی باتیں سنجیدگی سے سنی جاتی ہیں۔ شاید جہاں جہاں نفرت کا گزر نہیں ہو پارہا تھا وہاں فلم کو وسیلہ بنا دیا گیا۔ ٹیکس فری کر دیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس فلم کو دیکھیں اور برہمنوں پر ہوئے ظلم کو سچ مانتے ہوئے مسلمانوں سے نفرت کرنا سیکھیں۔ ویسے یہ سروے بھی بہت پہلے ہو چکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ’لگان‘ اور’ غدر‘ ایک ساتھ ریلیز ہوئی تھیں۔ ’لگان‘ انگریزوں کے خلاف تھی اور ’غدر‘ پاکستان کے خلاف۔ شائقین کو ’لگان‘ پسند آئی، یہاں تک کہ اس وقت کے پرائم منسٹر اٹل بہاری واجپئی نے اس فلم کو کئی بار دیکھا، مگر فلمی نقاد ’غدر‘ کی تعریف کیے نہیں تھکتے تھے، اس وقت کا ماحول ایسا نہیں تھا، ورنہ واجپئی جی بھی ’غدر‘ ہی دیکھتے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب سماجی ہم آہنگی پر مبنی فلمیں ٹیکس فری ہوا کرتی تھیں، تاکہ ملک میں بھائی چارہ مضبوط ہو۔ مگر اب ایسی فلم کو ٹیکس فری کیا جا رہا ہے جو سماجی ہم آہنگی کو بکھیر کررکھ دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں۔لمحوں نے خطا کی ہو یا نہ کی ہو، مگر صدیوں کی سزا جھیلنے کے لیے ہم کب تک خاموش بیٹھیں گے۔ کیا ایسا کوئی نہیں جو ہمیں جھنجھوڑے، ہمیں جگائے یا ہمارے ساتھ آکر کھڑا ہوجائے کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS