عبیداللّٰہ ناصر
اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں چار ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی عام آدمی کو ہی نہیں بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کو بھی حیرت زدہ کیے ہوئے ہے کیونکہ اگر ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو ان ریاستوں اترپردیش اور اتراکھنڈ کی سابقہ بی جے پی سرکاروں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی بنا پر انہیں دوبارہ موقع ملنا چاہیے تھا لیکن الیکشن میں کامیابی کام کرنے یا نہ کرنے کی بنیاد پر ہی نہیں ملتی، اس کے بہت سے فیکٹر ہوتے ہیں اور بی جے پی نے بڑی مہارت سے ان میں سے زیادہ تر فیکٹر اپنے حق میں کرلیے ہیں۔پرانی کہاوت ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، اب اس میں سیاست کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور سیاست خاص کر انتخابی سیاست اور انتخابات جیتنے کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ کا استعمال برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے اب چانکیہ نیتی کہا جانے لگا ہے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یہ قول اذکار رفتہ ہوچکا ہے کہ جائز مقصد کے حصول کے لیے راستہ بھی جائز ہونا چاہیے، اس کی جگہ صہیونی فارمولہ کامیابی راستہ کو جائز قرار دے دیتی ہے، اختیار کر لیا گیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں، تجزیہ نگاروں اور عام آدمی کو بھی اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام تر حالات حکمراں جماعت کے خلاف ہوتے ہوئے بھی اسے اتنی شاندار انتخابی کامیابی کیسے اور کیوں ملتی جا رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے عوام پر نہ کورونا میں ہوئی اموات کا اثر ہوا، نہ کسان تحریک کا، نہ فصل برباد کررہے آوارہ جانوروں کا، نہ بے لگام گرانی کا، نہ ریکارڈ توڑ بے روزگاری کا، نہ بد سے بد تر ہو رہی اقتصادی حالت کا، نہ مٹتے ہوئے کارو بار کا اور نہ ہی کھوکھلی ہو رہی ملکی معیشت کا۔ یہی نہیں اترپردیش سمیت ہندی بیلٹ میں ذات پات کی تفریق کا بھی کوئی اثر نہیں دکھائی دیا اور روایتی طور سے سنگھ مخالف پسماندہ اور نام نہاد نیچی ذات کے لوگوں نے بھی جوق در جوق بی جے پی کو ووٹ دیا۔اترپردیش میں عام خیال یہی تھا کہ برہمن یوگی سے ناراض ہیں اور اس بار وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی، پنڈتوں نے بھی دل کھول کے بی جے پی کو ووٹ دیے۔اترپردیش میں بی جے پی کی سیٹیں تو ضرور کم ہوئی ہیں لیکن اس کا ووٹوں کا تناسب تقریباً پانچ فیصد بڑھا ہے۔ اتر اکھنڈ کے بارے میں بھی یہی خیال تھا کہ وہاں بی جے پی کا اندرونی خلفشار اتنا زیادہ ہے کہ دو سال میں اسے تین بار اپنا وزیراعلیٰ تبدیل کرنا پڑا جس کا اثر اسمبلی الیکشن میں دکھائی پڑے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھری۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا وزیراعلیٰ خود ہی الیکشن ہار گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے ممکنہ وزیر اعلیٰ ہریش راوت بھی الیکشن ہار گئے۔
بی جے پی کی اس شاندار انتخابی کامیابیوں میں سب سے اہم فیکٹر تو آر ایس ایس کے کارکنوں کا رات دن بنا تھکے، بنا بادِ مخالف کی پروا کیے مشن کے طور پر ہندوتو کی تشریح کے لیے کام کرنا ہے۔ آج تو سوشل میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، جب یہ سب کچھ بھی نہیں تھا تو بھی عوام کی برین واشنگ کرنے، افواہ پھیلانے، کانا پھوسی کرنے، جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ان کی صلاحیت بے مثال تھی، آج تو ان کے پاس سب کچھ ہے، وسائل لا محدود میڈیا پر ان کا قبضہ ہے، سرکاریں ان کی ہیں جس کا وہ بے دردی اور بے شرمی سے استعمال کرتے ہیں۔ یوگی حکومت نے مبینہ طور سے بجٹ کا35فیصد اشتہار بازی پر خرچ کیا، کھربوں روپے کا مفت اناج تقسیم کر کے اپنا ووٹ بینک پختہ کیا۔ اس سے پہلے کی حکومتوں نے بھی اشتہار بازی پر بے دریغ خرچ کیا، مفت اشیا بھی تقسیم کیں لیکن جو ریکارڈ یوگی سرکار بناگئی، کوئی سابقہ سرکار اس کے قریب بھی نہیں پھٹک پائی تھی۔انتخابی مہم کے دوران مخالفین پر حملہ فطری بات ہے لیکن جتنی نچلی سطح پر آکر بی جے پی کی موجودہ قیادت مخالفین کو نشانہ بناتی ہے، وہ شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے یہاں تک کہ ایک بار تو راجیہ سبھا بیان کے لیے معافی بھی مانگنی پڑی تھی لیکن ایوان کے باہر ہو یااندر مخالفین پر نازیبا حملے آج کی بی جے پی کی قیادت کی عادت بن چکے ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان نا زیبا بیانات اور حملوں کا اسے خوب سیاسی فائدہ بھی ملتا ہے، اس کی وجہ سے بی جے پی کا ہر لیڈر بدزبانی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ بی جے پی کی کامیابیوں میں سب سے اہم فیکٹر تو ہندوتو ہے جو کھل کر مسلم دشمنی پر آمادہ ہے اور ہندوؤں کی ایک بڑی اکثریت کو اپنی ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ہر ممکنہ طریقہ اور ہر ممکن ذریعہ سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مہم چلا کر اس نے ہندوؤں خاص کر ہندو نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کو مسلمانوں کا مخالف ہی نہیں بلکہ دشمن بنا دیا ہے، وہ مسلمانوں کو لوجہاد، غنڈہ گردی، ملک دشمنی کی علامت سمجھتے ہیں، ہر ممکنہ طریقہ سے مسلمانوں کو ذہنی اذیت دینا ان کا شیوہ بن گیا ہے۔ کرناٹک کی حجاب مخالف مہم اس کا تازہ ترین نمونہ ہے اور ان سب سے وہ ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹ رہے ہیں، انہیں ملک کی ذہنی ہم آہنگی، سماجی اتحاد اور یگانگت سے کوئی مطلب نہیں ہے، وہ ملک میں ہندوؤں کی بالا دستی قائم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، کوئی بھی قیمت اس کے لیے دینے سے گریز نہیں کریںگے اور بی جے پی کی کامیابی اسی سوچ کا نتیجہ ہے، انہیں سیکولر ہندوستان سے ہی نفرت ہوگئی ہے، انہیں صرف اور صرف ہندوراشٹر چاہیے۔
در اصل رام مندر تحریک کے بعد سے ہی بی جے پی کو سیاسی فائدہ ملنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، لوک سبھا میں اس کے ممبروں کی تعداد دو سے ایک دم 86 پہنچ جانا کسی بھی پارٹی کو وہی فارمولہ اختیار کرنے پر مجبور کرسکتا ہے جس فارمولے سے اسے یہ فائدہ ملا تھا لیکن یہیں سے ہندوستانی سماج میں مذہب کے سیاسی استعمال کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ آر ایس ایس کو ہندوستانی سماجی ہم آہنگی سے کبھی دلچسپی نہیں رہی، اُس کا واحد مقصد ملک میں اکثریت میں ہونے کی بنا پر ہندوؤں کی بالادستی قائم کرنا رہا ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر ستر کی دہائی تک کانگریس نے اونچ نیچ ادھر اُدھر کرکے ہندوستانی سماج میں سیکولرزم کو سکہ رائج الوقت بنائے رکھا لیکن بتدریج یہ سکہ بازار میں اپنی قیمت کھوتا رہا ا ور اب اذکار رفتہ ہو چکا ہے اور اس کا سہرہ صرف آر ایس ایس کے سر نہیں باندھا جا سکتا بلکہ ہر پارٹی بشمول کانگریس میں گھسے سنگھیوں کے سر بھی باندھا جانا چاہیے جنہوں نے اندھی کانگریس دشمنی میں آر ایس ایس کو براہ راست بالواسطہ آگے بڑھایا اور جو کانگریس میں رہتے ہوئے آر ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے۔ آج بھی کانگریس کو یہی عناصر گھن کی طرح کھائے جارہے ہیں۔ آج ہندوؤں میں ایک بڑا گروپ آر ایس ایس کے نظریات کا مخالف ہے۔ بی جے پی کو اتر پردیش میں بڑی کامیابی ملی ہے اس کو41 فیصد ووٹ ملے ہیں یعنی 59فیصد لوگ اب بھی بی جے پی کے مخالف ہیں لیکن فرقہ پرستی کا زہر بہرحال ہندوستانی سماج میں پھیل چکا ہے اور اس طبقہ میں بھی سرایت کرچکا ہے جن کے بارے میں آج سے دس سال پہلے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔اس کے ساتھ ہی مودی سرکار نے مفت راشن، مکان بنوانے کے لیے نقد رقم دینے، مفت گیس سلنڈر دینے جیسے کاموں کے ذریعہ بھی اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا ہے، جس کا اسے فائدہ ملا ہے۔
لیکن سب کچھ اتنا صاف اور دو دو چار جیسا نہیں ہے خاص کر اترپردیش کے انتخابی نتائج کا اگر جائزہ لیا جائے تو تقریباً165سیٹیں جن پر جیت کا مارجن200سے لے کر 2ہزار ووٹوں کا ہے۔ سات سیٹوں پر200، 23سیٹوں پر 500، 49سیٹوں پر ایک ہزار اور 86سیٹوں پر دو ہزار کے آس پاس ووٹوں سے بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ سوچئے اس کا ذمہ دار کون ہے۔رفتاری سے ووٹوں کی گنتی کم مارجن سے جیتے امیدواروں کو سرٹیفکیٹ دینے میں آنا کانی کی درجنوں شکایتیں ملیں لیکن الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا، یہ سب فیکٹر بھی بی جے پی کے حق میں گئے۔مسلمانوں کی ایک طرفہ ووٹنگ سے سماج وادی پارٹی کی لاج بچ گئی، ورنہ اس کا حشر بھی بی ایس پی جیسا ہی ہوتا۔لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاست بہت بدل گئی ہے۔مودی کے دور میں سیاسی پارٹیاں خود کو کیسے زندہ رکھ سکیںگی یہی بڑا سوال ہے، کامیابی ناکامی تو بعد کی باتیں ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]