برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

0

جمہوریت میں اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دینے کا حق سب کو حاصل ہے، کوئی فرد کسی پارٹی کا قرض دار نہیں کہ وہ اس کا قرض ادا کرے مگر کئی لیڈروں کو یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ کسی خاص مذہب یا ذات کے لوگ انہی کی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ ان لیڈروں میں بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کو بھی شامل کرنا نامناسب نہ ہوگا۔ وہ اکثر اپنی پارٹی کی ہار کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑتی رہی ہیں اور اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ مایاوتی نے اترپردیش میں ہی بی ایس پی کی شکست کے لیے نہیں، اتراکھنڈ میں بھی شکست کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مسلم سماج نے اترپردیش میں بی ایس پی سے زیادہ ایس پی پر بھروسہ کرکے بڑی بھول کی ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ دلت سماج کے ووٹوں کے ساتھ اگر مسلم سماج کا ووٹ بھی مل جاتا تو بی ایس پی اسی طرح کی کامیابی حاصل کر سکتی تھی جیسی کامیابی ٹی ایم سی نے مغربی بنگال میں حاصل کی تھی۔
مسلمانوں کے بارے میں مایاوتی جیسی بڑی لیڈر کا اس طرح سوچنا مناسب نہیں ہے۔ وہ چار بار اترپردیش کی وزیراعلیٰ رہی ہیں۔ ظاہر ہے، انہیں وزیراعلیٰ بنانے میں مسلمانوں کا بھی رول رہا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر بار مسلمان انہی کی پارٹی کو ووٹ دیں اور اگر وہ کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسلمانوں نے مستقل طور پر بی ایس پی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے ایک انتخاب میں دیگر پارٹیوں کو ووٹ دیے تو کسی اور انتخاب میں بی ایس پی کو دیے اور مایاوتی وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب رہیں ۔ اگر ایک بار کم مسلمانوں کے بی ایس پی کو ووٹ دینے سے مایاوتی کو ان سے شکایت ہوگئی تو کل کو سماجوادی پارٹی کو بھی ایسی شکایت ہو سکتی ہے،ٹی ایم سی کو بھی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ 25 سال سے دیگر پارٹیوں کے مقابلے کانگریس کو مسلمان برائے نام ووٹ دیتے ہیں، وہ بھی ایسی شکایت کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے لیڈران اگر مسلمانوں کے ووٹ نہ ملنے کی شکایت کرتے تو بات سمجھ میں آتی مگر مایاوتی کے شکایت کرنے پر ان مسلمانوں کو تکلیف پہنچے گی جنہوں نے اس بار بھی بی ایس پی کو ووٹ دیا ہے، یہ بات الگ ہے کہ دلتوں کا اسے خاطر خواہ ووٹ نہیں ملا۔ جہاں تک کسی خاص پارٹی کو ووٹ دے کر ’بھول کرنے‘ کی بات ہے تو مسلمانوں کو کسی نہ کسی پارٹی کو ووٹ دینا ہی ہے اور اگر ایک پارٹی کو ان کا ووٹ دینا دوسری پارٹی کی نظر میں ’بھول‘ ہے تو اسے سدھارنے کا موقع ہر پانچ سال میں 2 سے زیادہ بار ملتا ہے، مسلمان اپنی ’بھول‘ سدھار سکتے ہیں، البتہ کوئی پارٹی ووٹ پانے کی وجہ سے جائز اور بہتر کام ان کے حق میں کرے گی، اس کی امید وہ کیسے رکھیں، کیونکہ اگر پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹوں کی طرح ان کی حالت کا بھی خیال ہوتا تو گزشتہ 75 سال میں ان کی حالت دلتوں سے بدتر نہ ہوتی مگر ہے اور اس کا اقرار سچر کمیٹی کی رپورٹ بھی کرتی ہے۔
مایاوتی کو مسلمانوں کو صرف مورد الزام ہی نہیں ٹھہرانا چاہیے، ان کی محبت کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ 2007 میں مایاوتی نے اپنی جیت کا کریڈٹ بڑی ذات کے ہندوؤں کو دیا تھا۔ یہی مایاوتی ہیں جنہوں نے 2017 میں ایک مسلم امیدوار کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا، ’مسلم سماج کے لوگ اس کو زیادہ لائک کرتے ہیں، جو کٹرپنتھی ہوتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا، ’میرے کہنے پر شیڈول کاسٹ، بیک ورڈ کلاس اور اَپر کاسٹ کا جو ووٹ ہمارے ساتھ میں جڑا ہوا تھا، تو وہ بی جے پی کو ہم نے ٹرانسفر کر دیا۔ تو کہیں وہ کٹرپنتھی جو ہے، وہ چناؤ جیتنہ جائے۔‘اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور مایاوتی کی وہ شبیہ جو مسلمانوں میںہے، اس کے مسخ ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔اپنی شکست کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے مایاوتی کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جاٹو سماج کا ووٹ بی جے پی کے پالے میں کیوں چلا گیا؟
اکثر پارٹیاں زیادہ سے زیادہ مسلم امیدوار بنانے کو ہی مسلمانوں سے محبت کا اظہار سمجھتی ہیں مگر مسلم لیڈر اور مسلم عوام میں فرق ہے، مسلمان خود کو خستہ حال رکھ کر اپنے لیڈروں کی سیاست نہیں چمکا سکتے۔ جو پارٹی ان کے لیے فلاحی کام کرے گی، مسلمان اسے ہی ووٹ دیں گے، جو پارٹی وعدوں سے بہلائے گی، اس سے بار بار دھوکہ نہیں کھانا چاہیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS