ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ایک ویڈیو گردش میں ہے ، جس میں ایک معمر بے حجاب خاتون نکاح پڑھا رہی ہیں۔ دلہن پوری زیب و زینت کے ساتھ شریکِ مجلس ہے اور برابر میں دولہا بھی براجمان ہے۔ مختصر مجلس میں اور بھی بے حجاب خواتین موجود ہیں۔ قاضی خاتون نکاح کی تفصیل بتاکر دولہن سے قبول کرواتی ہیں اور دولہا سے بھی۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ نکاح پڑھانے کا آغاز انھوں نے 2008 سے کیا تھا۔ اب تک چودہ پندرہ نکاح پڑھا چکی ہیں۔ ان کے پڑھائے گئے سابقہ نکاحوں کو تو شہرت نہ مل سکی ، اس نکاح کے میڈیا میں جگہ پانے کی وجہ یہ بنی کہ دلہن کے والد ایک معروف صحافی ہیں ، چنانچہ یہ خبر اخباروں کی زینت بنی اور بعض چینل والوں نے بھی اس کی پبلسٹی میں حصہ لیا ۔
میرے حلقۂ احباب میں سے کافی لوگوں نے ، جن میں بعض خواتین بھی ہیں ، مجھ سے اس واقعہ کا ذکر کرکے جاننا چاہا ہے کہ کیا کوئی خاتون نکاح پڑھا سکتی ہے؟ چوں کہ یہ عمل روایت اور معمول سے ہٹ کر ہے ، کسی عورت کو نکاح پڑھاتے ہوئے اب تک نہیں دیکھا گیا ، اس لیے یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے ۔
اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اسلامی شریعت میں انعقادِ نکاح کو بہت سادہ اور آسان رکھا گیا ہے۔ ہندوؤں میں نکاح کے لیے پنڈت ضروری ہے اور عیسائیوں میں پوپ ، لیکن مسلمانوں میں اس کے لیے کسی مولانا کی ضرورت نہیں۔ دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکی یا لڑکا نکاح کی خواہش کا اظہار (ایجاب) کرے اور دوسرا اسے قبول کرلے ، بس نکاح ہوجائے گا۔ مہر طے کیا جانا چاہیے کہ قرآن میں اس کا حکم دیا گیا ہے ، لیکن اس کا ذکر نکاح کی صحت کے لیے مشروط نہیں۔ مہر طے نہ ہوا ہو تب بھی نکاح ہوجائے گا اور لڑکی ‘مہرِ مثل’ (یعنی جتنا اس کے خاندان کی لڑکیوں کا مہر طے ہوا ہو) کی مستحق ہوگی ۔ نکاح کے موقع پر خطبہ پڑھا جانا ضروری نہیں ، ہاں مستحب ضرور ہے ۔ دولہا اور دلہن خود ایجاب و قبول کرلیں تو کسی اور کی ضرورت نہیں ۔ ایجاب و قبول کسی اور کے ذریعے کروانا ہے تو یہ کام کوئی مرد کرسکتا ہے اور عورت بھی ۔
اللہ کے رسولؐ کا معمول تھا کہ آپ نکاح کے موقع پر قرآن مجید کے تین مقامات سے چار آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے اسے ‘خطبۂ مسنونہ’ کہا گیا ہے۔ آپ کے زمانے سے لے کر اب تک نکاح پڑھانے کی ذمے داری ہمیشہ کسی مرد نے انجام دی ہے۔ تابعین کے زمانے میں جب بعض صحابیات زندہ تھیں ، تابعین انہیں بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ، لیکن نہ انھوں نے کبھی کسی صحابیہ سے نکاح پڑھوانے کی خواہش کی نہ کسی صحابیہ نے از خود اس کا اقدام کیا ۔ اس لیے کہ وہ لوگ شریعت کی روح کو سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے کسی مرد کے ذریعے نکاح پڑھانا ایک معمول بن گیا ہے ، جس کی مخالفت کی کبھی کسی نے ضرورت نہیں سمجھی ۔
اسلام میں حکم دیا گیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے ۔ اس لیے نکاح کی مجلس منعقد کی جاتی ہے ۔ اس میں عموماً مرد ہوتے ہیں اور اگر خواتین بھی شریک ہوتی ہیں تو وہ شریعت کی تعلیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے اختلاط سے بچتی ہیں اور حجاب اختیار کرتے ہوئے مردوں سے الگ تھلگ رہتی ہیں۔ ایجاب و قبول کرواتے ہوئے لڑکی کی غیر حاضری میں اس کے ولی سے لڑکی کی رضامندی کو دریافت کرنا ہوتا ہے اور کون لوگ اس نکاح کے گواہ بنے ہیں؟ اسے دیکھنا پڑتا ہے ۔ نکاح کی دستاویز تیار ہورہی ہو تو اس کی کارروائی مکمل کروانی پڑتی ہے ۔ شریعت نے ان جھنجھٹ کے کاموں سے عورت کو آزاد رکھا ہے ۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ عورت اس دائرے میں دخل دینے کی کوشش نہ کرے ۔
صرف یہ دعویٰ کیا جائے کہ شریعت کی رو سے عورت نکاح پڑھا سکتی ہے اور شریعت کی دوسری تعلیمات کو کھلے عام پامال کیا جائے ، یہ درست رویہ نہیں ہے ۔ شریعت نے عورتوں کو عام مجلسوں میں حجاب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ شریعت نے مردوں اور عورتوں کو اختلاط سے روکا ہے ۔ قرآن نے واضح الفاظ میں حکم دیا ہے کہ عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں ، ہاں جو زینت خود نہ ظاہر ہوجائے اس میں مضائقہ نہیں ۔( النور :31) کوئی عورت شریعت کی ان تعلیمات کو تو ملحوظ نہ رکھے ، بس یہ کہے کہ شریعت نے نکاح پڑھانے کا حق عورت کو دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے پیچھے چلنا نہیں چاہتی ، شریعت کو اپنے پیچھے چلانا چاہتی ہے ۔
وہ روایات اور معمولات ، جنھیں امّت نے شریعت کی روح پیش نظر رکھتے ہوئے صدیوں سے اختیار کر رکھا ہے ، ان میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ان سے بغاوت کرنا درست رویہ نہیں ہے۔
کیا عورت نکاح پڑھا سکتی ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS