جنگ کیخلاف امن پسند وں کااحتجاج

0

دنیا کے حکمراں بھلے ہی کچھ کہیں لیکن لوگ کبھی بھی جنگ کو پسند نہیں کرتے، وہ امن وسکون اورپیارومحبت کے ساتھ خود بھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی یہی پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی جنگ یا تشدد کی بات ہوتی ہے یا اس طرح کے حالات ہوتے ہیں ، لوگ مذہب، علاقہ، نسل اورزبان سے اوپر اٹھ کر سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ معاملہ ان کے ملک کا ہے یا دوسرے ملک کا ۔ ان کے لئے انسانیت ہی سب سے مقدم رہتی ہے اوراس پر جہاں بھی ضرب پڑتی ہے اوراس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ، لوگ خاموش نہیں بیٹھتے ہیں ۔وہ سڑکوں پر آکرضرور احتجاج کرتے ہیں ۔اس طرح کے حالات پہلے بھی دیکھنے کو ملے ۔ ابھی جب 4دنوں قبل روس نے یوکرین پر حملہ کیا تب بھی لوگ روس سے لے کر امریکہ تک سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے اوراپنی متحدہ آواز سے دنیا کے حکمرانوں کو جنگ کے خاتمہ کے لئے آمادہ کرنا شروع کردیا ۔ بڑی بات یہ ہے کہ جیسے جیسے جنگ آگے بڑھ رہی ہے ، احتجاج میں شدت آرہی ہے اور اس کا دائرہ بھی بڑھ رہا ہے ۔یہ اوربات ہے کہ حکومت ایسی آوازوں کو پسند نہیں کرتی اورجو لوگ احتجاج کرتے ہیں ، ان کی گرفتاری عمل میں لاتی ہے اوران کے خلاف مقدمات درج کراتی ہے لیکن امن پسند لوگ ایسی کارروائیوں کی پروا کبھی نہیں کرتے ۔ وہ اپنی آواز حکومت تک پہنچا کر ہی رہتے ہیں ۔یوکرین پر جیسے ہی حملہ ہوا دیگر ممالک کے لوگ پہلے ہی سڑکوں پر آگئے تھے خود رو س میں احتجاج ہونے لگا ۔وہاں کی راجدھانی ماسکو، پیٹرس برگ اوردیگر بڑے شہروں میں لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں ، شروع میں خاموش احتجاج ہوا، اب باقاعدہ بینر ، پلے کارڈکے ساتھ نعرے بازی بھی ہورہی ہے ۔حتی کہ ماسکو میں واقع گیریج میوزیم نے کہا ہے کہ جب تک یوکرین پر حملہ بند نہیں ہوتا گیریج بند رہے گا۔رو س ہی کیا امریکہ ، جاپان ، ہنگری ، فرانس، آسٹریلیاسمیت متعدد مغربی ممالک میں لوگ احتجاج کرکے مطالبہ کررہے ہیں کہ جنگ نہیں چاہئے اوروہ حملے کی مذمت کررہے ہیں ۔برلن میں تو حملے کے خلاف اور یوکرین کی حمایت میں ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے احتجاج کیا ۔
یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج کس قدر ہورہا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق روس میں اب تک احتجاج اورنعرے بازی کی پاداش میں 460 لوگوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے ۔ان میں 200 سے زیادہ لوگ ماسکو کے ہیں ۔یہی نہیں یوکرین پر حملے کی مذمت میں اوپن لیٹر جاری کیا گیاہے ، جس پر 6ہزار سے زیادہ میڈیکل اسٹاف ، 34ہزارسے زیادہ انجینئر س ، 500اساتذہ کے علاوہ صحافیوں ، مقامی اکائیوں کے ممبران اور سرکردہ شخصیات نے دستخط کئے ہیں ۔روس میں ایک آن لائن پٹیشن بھی شروع کی گئی ہے جس پر لاکھوں لوگوں نے دستخط کئے۔ صرف احتجاج نہیں ہورہا ہے بلکہ حملے کے عدم جواز کے لئے لوگ اپنے طور پر اسے الگ الگ نام دے رہے ہیں ،کیونکہ بات صرف ایک ملک کے دوسرے ملک پر حملے کی نہیں ہے ، بلکہ جب بھی دنیا کے کسی حصہ میں جنگ ہوتی ہے ۔ دوسرے ممالک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر ملک کے دفاعی اخراجات اوربجٹ میں اضافہ اوردیگر اخراجات میں کٹوتی شروع ہوجاتی ہے ۔اس سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے ۔آخر اسے کیا کہا جائے گا کہ یوکرین پر حملے کے خلاف جب جرمنی میں احتجاج ہوا تو وہاں کی پارلیمنٹ سے خطاب میں چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ اس برس ملک کے دفاعی بجٹ میں 100 ارب یورو (113 ارب ڈالر) کا اضافہ کیا جائے گا۔ادھر شمالی کوریا نے سمندر میں بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ۔
امن پسند لوگ یہی کہتے ہیں کہ جنگ خواہ کہیں ہو ، ا س کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں دنیا بھر کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔جو پیسہ عام لوگوں کے مسائل کے حل اورملک کی ترقی پر خرچ ہونا چاہئے ، وہ ہتھیاروں کی خریدوفروخت پر صرف کیا جاتا ہے ۔ملک کے دفاع کے نام پر اس کا جواز پیش کیا جاتاہے ۔ اگر دنیا میں امن رہے اورکہیں بھی جنگ وجدال ، خون خرابہ اور تشدد نہ ہو تو ہتھیاروں کی خریدوفروخت اوردفاع کے نام پر بے تحاشہ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ جنگ زدہ ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں دوسری طرف امن سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ خوشحالی اورترقی کاماحول بنتا ہے اوردنیا تباہی سے محفوظ رہتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS