عباس دھالیوال
کورونا وائرس کے چلتے جہاں عالمی سطح پر بڑی اقتصادیات سمجھی جانے والی قوتوں کو مالی بحران کا شکار ہونا پڑا ہے وہیں چین نے کووِڈ کے دوران اپنی معیشت جس برق رفتاری سے بڑھائی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کورونا بحران کا اثر اس کی معیشت پر نہیں پڑا ہے۔2021 میں بڑی معیشتوں میں جس ملک نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، ان میں بھارت شامل ہے۔ مختلف تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ ہندوستان اس سال دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن کر ابھرے گا۔ ہندوستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 3.25 ٹریلین ڈالر ہے اور تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ یہ ملک پچیس برسوں میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن کر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی بنا پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن امیگریشن قوانین میں نرمی لا رہے ہیں تاکہ ہندوستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدوں کو بروئے کار لایا جا سکے، ہزاروں ہندوستانیوں کے لیے برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کا راستہ آسان ہو سکے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس ماہ کے آخر میں برطانیہ کی بین الااقوامی تجارت کی سکریٹری این میری ٹریویلیان کے ایک وفد لے کر نئی دہلی آنے کا امکان ہے۔اس دورے کے دوران وہ ہندوستانیوں کے لیے امیگریشن قوانین میں نرمی کے ساتھ کام اور اسٹوڈنٹ ویزا کی فیسوں میں کمی کے امکانات پر بات کریں گی۔
اس سے قبل جب وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی کابینہ کے 6 اراکین کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والے بھارت کا دورہ کیا تھا تو ان کے دفتر نے اسے تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی وفد قرار دیا تھا۔ اس دورے میں کیمرون نے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو اگلی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں لیکن وہ بڑی حد تک خالی ہاتھ لوٹے تھے، کیونکہ اس سے اگلے سال برطانیہ اس ابھرتی ہوئی اقتصادی سپر پاور کے ساتھ تجارتی شراکت داری کی فہرست میں تیرہویں نمبر سے سولہویں نمبر پر چلا گیا تھا۔اس کے ایک سال بعد تک بھی ہندوستانی حکومت کے کسی سینئر اہلکار نے لندن کا دورہ نہیں کیا تھا جبکہ بلجیم، فرانس، جرمنی اور امریکہ کے لیڈروں نے نئی دہلی کا دورہ کیا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور نئے کاروبار کو شروع کرنے کے خواہش مند لیڈروں کی ایک لمبی قطار لگ گئی تھی۔
کورونا وبا سے متاثر ہونے کے باوجود ہندوستان کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کو دیکھتے ہوئے دنیا کے بہت سے ممالک دوبارہ ہندوستان آنے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا کے مختلف رہنما خصوصاً مغربی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت سے تعلقات بہتر کر کے ہی چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ بہتر طریقے سے کرنا ممکن ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی وزرا ایک اور آپشن پر غور کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ ہندوستان کے ساتھ بھی اسی طرح کا بندوبست کیا جائے جیسا آسٹریلیا کے ساتھ کر رکھا ہے۔ اس سے ہندوستان کے نوجوانوں کو تین سال تک برطانیہ میں کام کرنے کا موقع ملے گا جبکہ ایک اور آپشن یہ ہے کہ برطانوی یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کرنے والے ہندوستانیوں کو برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دیے جانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانوی سرکاری اہلکار نے ٹائمز اخبار کو بتایا کہ بھارت اب بھی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کے شعبوں میں کافی حد تک ’پروٹیکشنسٹ یعنی اپنی ملکی صنعت کو بیرون ممالک کے ساتھ تقابل سے محفوظ رکھنے کے لیے درآمدات پر بھاری ٹیکس لگانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اگر تھوڑی سی گنجائش وہاں پیدا کر دی جائے تو یہ چیز ہمیں بہت آگے لے جاسکتی ہے۔‘ قابل ذکر یہ ہے کہ گزشتہ برس برطانیہ اور ہندوستان نے آپسی تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا تھا اور بہتر تجارتی شراکت داری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس ضمن میں برطانوی حکام کا ماننا تھا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کا اضافہ ہوپائے گا، تاہم وہ اس سے کہیں زیادہ چاہتے ہیں تاکہ یوروپی یونین کے بلاک سے نکلنے کے بعد یونین کے ساتھ اس کی تجارت میں ہونے والی کمی کا ازالہ کیا جاسکے۔
امریکہ اور یوروپی یونین دونوں ہی ہندوستان سے تجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔ یوروپی یونین بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2020 میں دونوں کے درمیان تجارتی حجم 72 ارب ڈالر تھا جو کہ ہندوستانی تجارت کے حجم کا گیارہ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یوروپی کمیشن کے مطابق یوروپی یونین امریکہ کے بعد ہندوستانی برآمدات کی دوسری بڑی منڈی ہے جہاں سے برآمدات کی شرح چودہ فیصد ہے۔ گزشتہ سال مئی میں یوروپی یونین نے بھارت کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور برسوں کی بات چیت کے بعد 27 ممالک کے رہنماؤں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک ورچوئل اجلاس منعقد کیا تھا۔
یوروپی یونین کے حکام کے مطابق چین کے بارے میں خدشات برسلز اور نئی دہلی کو قریب لارہے ہیں۔ایک تحقیقی گروپ برطانیہ کے چیٹم ہاؤس کی ایک ایسوسی ایٹ فیلو کلیو پاسکل کے مطابق بھارت بھی چین کے توسیع پسندانہ عزائم سے پریشان ہے۔ ایک حالیہ مقالے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہمالیہ کے علاقے میں دفاعی اعتبار سے سرگرمی بڑھ گئی ہے، ہندوستان کے لیے ایک محفوظ بحر ہند بہت اہم ہے۔ اس کی 90 فیصد تجارت اور تیل کی نقل و حمل اسی راستے سے ہوتی ہے اور خطے میں چین کی سمندری سرگرمیوں میں اضافے سے ہندوستان کی اسٹرٹیجک کمیونٹی بھی پریشان ہے۔ کل ملا کر دنیا میں چین کی بڑھتی معیشت و سرمایہ کاری کو اعتدال میں رکھنے کے لیے یوروپی یونین برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک ہندوستان کو مضبوط و مستحکم دیکھنے کے خواہاں ہیں۔
[email protected]