حجاب کا تنازع برقع اور ٹوپی تک پہنچا

0

شاہد زبیری

کرناٹک کے اڈوپی ضلع کے گورنمنٹ کالج میں مسلم طالبات کے حجاب کا تنازع کرناٹک ہائی کورٹ کی سہ رکنی فل بنچ میں زیر سماعت ہے۔ اگلی سماعت 21 فروری کو ہے۔ یہ تنازع ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمی سطح پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ابھی تک حجاب یا اسکارف تک بات تھی، نقاب یا برقع کا مسئلہ زیر بحث نہیں تھا لیکن اب برقع اور ٹوپی تک بات پہنچ گئی ہے۔ یوپی کے علی گڑھ کے دھرم سماج ڈگری کالج انتظامیہ نے مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کی تو بی جے پی کے یوتھ ونگ بی جے پی یووا مورچہ نے حجاب کے خلاف علی گڑھ میں جلوس نکالا اور برقع، ٹوپی اور حجاب پر پابندی کے نعرے لگا ئے۔ ہندی کے ایک کثیرالا شاعت روزنامہ کی خبر کے مطابق اس بابت ایک میمو رنڈم بھی دیا گیا۔ خبر کے مطابق14 سیکنڈ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے جس میں بھگوا دھاری نوجوان برقع نذر آتش کرتے ہو ئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی یووا مورچہ نے اس ویڈیو سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے طلبہ یونیورسٹی کیمپس میں احتجاجی جلوس نکال چکے تھے۔ کچھ دیگر مقامات پر بھی مسلم خواتین جلوس نکال چکی ہیں۔ جانے انجانے میںمسلم طلبہ اور مسلم خواتین کے احتجاج سے یہ تنازع مزید طول پکڑے گا جو حجاب پہننے والی مسلم طالبات کے خلاف جائے گا اور پریشانی کھڑی کرے گا۔ یو پی ہی نہیں، مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی ایم پی اور مالیگائوں بم دھماکہ کی ملزم سادھوی پرگیہ نے بھی عوامی مقامات پر برقع یا حجاب پہننے پر پابندی کی بات کہی ہے۔ کسان سنیکت مورچہ کے مرکزی لیڈر، جو مدھیہ پردیش سے تعلق رکھتے ہیں، ڈاکٹر سنیلم نے ایک چینل کو انٹرویو میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ بات صرف اتنی نہیں، مہاراشٹر سماجوادی پارٹی کا خواتین سیل بھی اس تنازع میں کود پڑا۔ یو این آئی کی خبر کے مطابق خواتین ونگ کے وفد نے بھیونڈی سے پارٹی کے اسمبلی رکن رئیس شیخ کی قیادت میں مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی، مذہب اسلام میں حجاب کی اہمیت و ضرورت بتائی اور 10 ہزار خواتین کا دستخط شدہ میمو رنڈم گورنر کو سونپا۔ کرناٹک کانگریس کے سابق وزیراعلیٰ سدارمیا نے حجاب پر پابندی کی مخالفت کی ہے، کرناٹک مائنارٹی ویلفیئر محکمے کے سکریٹری کی طرف سے اقلیتی تعلیمی اداروں میں بھی حجاب پر پابندی کا فرمان جا ری کیے جا نے کو عدالت کے حکم کی خلاف ورزی بتا یا ہے اور اس حکم کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی اثنا میں صوبے کے اٹارنی جنرل نے سرکار کا موقف پیش کرتے ہو ئے کہا کہ حجاب اسلام کا حصہ نہیں اور 1985 سے اڈو پی کے کالج میں یو نیفارم ہے۔ ان کے بقول یہ تنازع پہلی مرتبہ دسمبر 2021 میں اس وقت ہوا جب کچھ مسلم طالبات نے پرنسپل سے حجاب پہننے کی اجازت مانگی ۔
ان حالات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو بظاہر معاملہ کالج کی طالبات اور پرنسپل یا کالج انتظامیہ کے مابین تھا جس کو باہمی گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا تھا لیکن آج اس تنازع نے جو سنگین رخ اختیار کر لیا ہے، وہ کچھ اور چغلی کھاتا ہے اور پس پردہ خالص سیاسی کھیل لگتا ہے جس کا شکار مسلمان بن گئے یا بنا دیے گئے ہیں۔ تنازع کو اس وقت پر لگے جب بھگوا دھاری غنڈوں نے ایک تنہامسلم لڑکی مسکان خان کو کالج جا تے ہو ئے گھیر لیا اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جس جرأت، حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کیا، اس کو کسی بھی زاویے سے غلط نہیں ٹھہرا یا جا سکتا لیکن مسلم جماعت کے ایک قائد کے ذریعہ مسکان خان کو 5 لاکھ کا انعام دینے کا اعلان کرنے کی کیاضرورت اور افادیت محسوس کی، یہ تو وہ جانیں، البتہ اس سے تنازع کو جنم دینے والی فاشسٹ طاقتوں کو ہی فائدہ پہنچے گا جبکہ اس مسلم جماعت کے دوسرے دھڑے کے ایک محترم قائد مولانا ارشد مدنی نے اس پر سنجیدہ بیان دیا اور 14 فروری کو میڈیا کے پوچھے جانے پر کہا کہ حجاب تو ہر انسان کرتا ہے۔ جو جتنا باحیا ہے اتنا ہی حجاب کرتا ہے۔ انسان کا لباس اس کے جسم کا حجاب ہے۔ انہوں نے جو خاص بات کہی، وہ یہ کہ اس تنازع کو طول نہ دیا جا ئے لیکن یہ بیان اس وقت آیا جب تنازع طول پکڑ چکا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حجاب کی حمایت بالی ووڈ کی سونم کپور اور ان جیسی دیگر شخصیات نے کی۔ امریکہ کی سپر ماڈل بیلا حدید نے ہندوستان اور دیگر ممالک کی طرف سے حجاب پر پابندی پر شدید نکتہ چینی کی اور کرناٹک کے تعلیمی ادارے میں طالبات پر حجاب پر پابندی کو مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا اور سوال کھڑا کیا کہ خواتین کو کیا پہننا چاہیے، کیا نہیں اور وہ کیا پڑھ سکتی ہیں، کیا کھیل سکتی ہیں، یہ بتانا کسی دوسرے کا کام نہیں، اس کے برعکس ملت کے کچھ محسنوں نے حجاب میں اسلام کی اہمیت اور فرضیت پر دلائل کے انبار لگا دیے، قرآن اور سنت کے حوالوں سے اس مسئلے کو خالص مذہبی مسئلہ بنا دیا اور اس بحث کو اسی رخ پر ڈال دیا جس رخ پر تنازع کو جنم دینے والے چا ہتے تھے۔ اس ساری بحث میںمیں جو سڑک سے عدالتوں اور ٹی وی چینلوں تک جا ری ہے اور عالمی سطح پر پھیل گئی ہے، آخر کیاوجہ ہے کہ اس تنازع پر ہمارے وزیراعظم نریندر مودی مہر بہ لب ہیں۔ ان دنوں وزیراعظم مسلم خواتین سے ہمدردی کا بہت اظہار کر رہے ہیں اور مسلم سماج کے ہاتھوں ستائی جانے والی مظلوم مسلم بہن بیٹیوں پر تین طلاق قانون بنائے جانے کا احسان تو گنا رہے ہیں لیکن اس پر لب نہیں کھولا ہے۔ وزیراعظم ہو نے کے ناطے ان سے بہتر کون جا ن سکتا ہے کہ ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کتنی ضروری ہے، ان کی سرکار کا نعرہ ہے کہ ’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘، ’مہیلا سشکتی کرن‘ ، خواتین کے اِمپاورمنٹ یا حصہ داری کے لیے تعلیم کتنی ضروری ہے، ان کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت کے ہر شہری کو رائٹ ٹو ایجو کیشن کے تحت تعلیم پانے کا حق ہے۔ اسی لیے تو پرائمری اسکولوں تک بچوں کو لانے کے لیے سرکار نے مڈ-ڈے میل شروع کیے جانے کی اسکیم شروع کی۔ پھر وزیراعظم پر سکوت کیوں طاری ہے، کیا کر ناٹک کے تعلیمی ادارے حجاب کے نام پر مسلم لڑکیوں سے ان کے تعلیمی حق نہیں چھین رہے ہیں، کیا یہ مسلم لڑکیوں کے ساتھ صریح نا انصافی نہیں؟ اگر ہے تو وزیر اعظم کچھ تو بولیں۔
یہ تنازع مذہبی حق سے زیادہ انسانی اور آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے تعلق رکھتا ہے اور اسی بنیاد پر یہ لڑائی لڑی جا نی چاہیے۔ مسلم ماہر قانون فیضان مصطفی کے مطابق عدالتوں کا یہ کام نہیں کہ وہ مذہبی کتابوں اور عقائد کی تشریح اور تعبیر کریں۔ ان کا دائرۂ کار قانون کی تشریح اور توضیح ہے۔ ‘The Enlightening Phenomenon’کے مصنف اور انسٹی ٹیوٹ آف مسلم لاء کے ڈائریکٹر انور علی ایڈووکیٹ کی نظر میں یہ ہر شہری کا بنیادی اور انسانی حق ہے کہ آئین میں دیے گئے ان حقوق کی روشنی میں وہ اپنی مرضی کا پہنے اور اپنی مرضی کا کھائے۔ ان کے بقول ایک سیکولر اور مشترکہ کلچر والے ملک میں اگر عدالتوں کے روبرو اس مسئلے کو ہم خالص مذہبی تناظر میں پیش کریں گے، قرآن و حدیث کے حوالے پیش کریں گے تو اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو شاہ بانو کیس کا ہوا یا مودی سرکار میں تین طلاق کیس کا ہوا۔ ان ماہرین قانون کی رائے ہے کہ عدالتوں کو یہ اختیار نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی مذہبی کتاب اور اس کے عقیدے کی تعبیر اور تشریح کا مجاز ٹھہرائیں۔ انور علی ایڈووکیٹ کے مطابق نتائج کے لحاظ سے یہ ہمالین غلطی ہو گی۔ ان کے نزدیک ہماری عدالتیں قانون کی تعبیر اور تشریح کی مجاز ہیں لیکن جب ہم خود ان کے سامنے قرآن اور احادیث اور روایات کے حوالے پیش کریں گے تو وہ اس کی پابند نہیں ہوں گی کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کے تحت اس کے معنی اور مطالب اخذ نہ کریں۔ ایسا ہو گا تو نتائج بھی اسی کے مطابق سامنے آئیں گے جیسا کہ ماضی بعید اور ماضی قریب میں ایسا مسلمانوں کے مسائل کے ساتھ ہو چکا ہے۔ کرناٹک کی سرکار بھی اسی لیے یہ ثا بت کر نے میں لگی ہے کہ حجاب اسلام کا حصہ نہیںاور مسلمانوں کے وکلا اس تنازع کو انسانی اور بنیادی حقوق کی بجا ئے اسلام سے ثابت کر نے میں زور لگا رہے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک کے 5 صوبوں میں اسمبلی انتخابات جاری ہیں اور 2023 میں کر ناٹک میں ہو نے والے ہیں۔بی جے پی اپنی زمین بچا نے کے لیے انتخا بات کو پولرائز کر نے کی جی توڑ کوشش کررہی ہے اور ہندوتو کا پہلا ٹا رگیٹ مسلم اقلیت کو بنا رہی ہے۔ وہ بھی جا نتی ہے کہ سر ڈھانپنا اور گھو نگھٹ نکالنا بھارتیہ سنسکرتی اور سبھیتا کی پہچان ہے۔ اسی لیے تو سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیمیں ویلنٹائن ڈے پر نوجوان جوڑوں پر ڈنڈے برساتی ہیں، لڑکیوں کے جینس پہننے پر مغربی تہذیب کی نقالی کرنے کا الزام لگا تی ہیں۔ سنگھ پریوار اپنے سو سالہ ہندو راشٹر کے ایجنڈے کے لیے اس وقت کو سب سے بہتر مان کر اپنی پوری طاقت لگا رہا ہے۔ گجرات کی طر ح جنوب کی ریاست کر ناٹک بھی اس کے ہندوتو کی لیبارٹری ہے اور جنوب کے قلعوں کو فتح کرنے کا گیٹ وے ہے۔ اسی لیے اس مرتبہ اس نے کر ناٹک کا انتخاب کیا ہے۔ کر ناٹک کے وزیر تعلیم بھی سنگھ کے پر چارک رہے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کا نظریہ ہے کہ بھارت’ دھرم نر پیکش‘ نہیں، ’پنتھ نر پیکش‘ہے۔ پھر حجاب کے معاملے میں مغرب کے ’دھرم نر پیکش‘ فرانس یا دوسرے ممالک کی مثال کیوں دی جا رہی ہے؟ بھارت میں خواتین کے رہن سہن اور پوشاک میں جو تبدیلی آ رہی ہے، مسلم خواتین بھی اس سے اچھوتی نہیں ہیں۔ برقع کی جگہ پہلے چادر نے لی اور اب سر پر اسکارف یا حجاب لے رہا ہے۔ گلے میں دوپٹہ اوراوڑھنی کا چلن بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ تبدیلی صرف ہندوستان کی مسلم لڑکیوں ہی میں نہیں، سعودی عرب اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کی لڑکیوں اور خواتین میں بھی آ رہی ہے۔ تغیر اور تبدیلی فطرت کا عین تقاضہ ہے۔ بقول اقبال’ثبات صرف تغیر کو ہے زمانہ میں‘۔ ایسے تنا زعات مسلم لڑکیوں اور خواتین کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے میں مانع ہوں گے۔ مسلم لڑکیاںجو تعلیم کے میدان میں مسلم لڑکوں کی طرح پسماندہ ہیں، وہ اگر حجاب پہن کر تعلیم حاصل کر نا چا ہتی ہیں تو حجاب کو متنازع بنا کر ان کوتعلیم اور ترقی سے روکنا آخرکس کے ایجنڈہ کا حصہ ہے اور کون اس میں معاون بن رہا ہے، یہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کھیل کے سب کردار آج نہیں تو کل سامنے آئیں گے اور ضرور آئیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS