اب لسانی بے وقعتی بھی سامنے ہے…

0

زین شمسی

آپاردوکیوں پڑھ رہے ہیں؟ بہت سیدھا سا سوال ہے، جو اساتذہ اپنے طلبا سے پوچھ لیا کرتے ہیں، اساتذہ کے اس سیدھے سے سوال کا جواب طلبا بھی بڑی معصومیت کے ساتھ دیتے ہیں کہ آسانی کے ساتھ اچھے نمبر آ جاتے ہیں۔ کلاس ٹیچر نوٹس دیتے ہیں اور گیس پیپر دیگر پریشانیوں کا حل نکال دیتے ہیں۔ ان کے اس جواب سے نہ صرف شرمندگی ہوتی ہے، بلکہ شدید غصہ آتا ہے کہ اردو کی لڑائی اور اردو کی پڑھائی میں کس طرح کا تضاد ہے اور کہیں کہیں مماثلت بھی۔ آخر ایسا کیوں ہوا ہے کہ کالج کے لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ ذہنیت گھر کر گئی ہے کہ کلاس نوٹس کے بجائے وہ ٹیوشن کے نوٹس کو اہمیت دے رہے ہیں اور یہ کیوں ہے کہ کالج میں اردو پڑھناانہیں ہرگز گوارہ نہیں ہے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ کالجوں میںداخلہ کا فیصد اور پڑھائی میں عدم دلچسپی ایک ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اردو میں داخلہ بھی زیادہ ہو اور طلبا بھی غائب رہیں۔، لیکن ایسا ہو رہا ہے، خاص کر بہار کے تعلیمی نظام میں یہ رجحان ہر جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے، یہ مطالعہ کا موضوع ہے۔ کہاں پر چوک ہوئی اور کہاں پر بھول ہوئی ہے، اس کا سرا تلاش کرنا ضروری ہے۔ یہ بات میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ بہار کے تمام کالجز میں پڑھائی کے نام پر یا تو گیس پیپر ہے یا ٹیوشن ٹیچرس کا نوٹس ہے۔ بہت ہی قلیل تعداد میں بچے سنجیدگی کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔اگر میری بات غلط لگے تو سروے کر لیجیے۔
اس کی تین وجوہات میری سمجھ میں آئی ہیں۔ پہلی تو سیاسی بھی ہے اور سماجی بھی۔ اردو اسکولوں میں تو بحالت مجبوری اردو کی تعلیم کا نظام ہے، لیکن وہاں اساتذہ کی بہت کمی ہے۔ جو اساتذہ ریٹائر ہوئے، ان کا مقام لینے کوئی دوسرا نہیں آ سکا، اسامیاں پُر نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس قلت کا کوئی سدباب اردو آبادی نے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ پرائیویٹ اسکولوں نے اردو کی تعلیم کا کوئی نظم نہیں رکھا۔ انہوں نے اپنے اسکولوں میں غیر اعلانیہ طور پر اردو سبجیکٹ کو جگہ ہی نہیں دی۔ مسلمانوں کے بچے وہاں جا کر ہندی اور سنسکرت پڑھنے لگے اور ان کی اس کارکردگی پر ان کے سرپرست نے کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، بلکہ یہ سنا جانے لگا کہ اسکول اچھا ہے، اردو نہیں ہے تو کیا ہوا؟ یعنی ان کی سہل پسندی خودپسندی کی مہرکے ساتھ اردو کو مہر بند کر گئی۔ ایسے میں ایک بڑا حلقہ اردو سے دور ہوتا چلا گیا ہے۔مطلب ایک طرف سیاست نے اردو کی اسامیوں پر توجہ نہیں دی تو دوسری طرف مسلم سماج کا بھی ایک بڑاحصہ اردو کے ناپید ہوجانے پر متوجہ نہیں ہوا۔ دوسری مزیدار بات یہ ہوئی کہ اردو کا رونا رونے والے لوگ، ادارے، تنظیمیں، ان سب نے بھی پرائیویٹ اسکولوں کے منتظمین سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ آخر آپ اپنے اسکولوں میں اردو کی تعلیم کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ کیا سرکار کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ ملا ہے، یا آپ کے پاس اردو ٹیچرس کو تنخواہ دینے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ ہر شہر میں آٹھ سے دس پرائیوٹ اسکولس ہیں اور اسی شہر میں آٹھ سے دس مسلم تنظیمیں ہیں، لیکن ان لوگوں نے کبھی یہ پہل نہیں کی کہ پرائیویٹ اسکولوں میں اگر اردو نہیں پڑھائی جائے گی تو ہم اپنے بچوں کو اسکول سے ہٹا لیں گے۔ مگر اردو کی بقا کے لیے یہی تنظیمیں سمینار اور مشاعروں میں اپنی پوری قوت صرف کرتی نظر آئیں گی۔ آج تعلیمی شعبہ سے منسلک اردو کے اساتذہ کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو انہوں نے بھی کبھی کوشش نہیں کی کہ اسکولوں اور کالجوں میں اردو کے طلبا کی موجودگی کو بڑھایا جائے، ان کے گھروں یا ان کے سرپرستوں تک رسائی ہو اور انہیں بیدار کیا جائے کہ آخر ایسی تعلیم سے کیا فائدہ، جو آپ کو مقابلہ جاتی امتحان میں پیچھے دھکیل دے۔
بھارت میں اردو ساتویں مقام پر اس بدنامی کے ساتھ پہنچ رہی ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے، حتیٰ کہ غیر ملکی زبان ہے، تو جو اردو کی حالت ہے اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ جس طرح مسلمان بے وقعت ہو رہے ہیں، اسی طرح اردو بھی بے وقعتی کا شکار ہے۔ ایک زوال پذیر معاشرہ اخلاق، تہذیب، روزگار کے ساتھ ساتھ اپنی زبان بھی گنوا دیتا ہے۔ مسلمان نہ صرف سیاسی و سماجی طور پر بلکہ لسانی طور پر بھی غرباء ہند میں شمار ہونے لگے ہیں۔کم از کم اتنی فکر ہی کر لینی چاہیے کہ آداب و اخلاق کو قائم کر نے کے لیے ہی اردو سکھا دی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس وقت بہار میں اردو کی جو صورتحال ہے، اسے بیس بائیس سال میں فارسی بنتے دیر نہیں لگے گی۔ جامعہ، جے این یو، ڈی یو اور علی گڑھ میں اس وقت اردو کے جو طلبا نظر آرہے ہیں، وہاں بھی اس کا فقدان شروع ہو جائے گا، کیونکہ جب خام مال ہی نہیں ملے گا تو پروڈکٹس کیسے بکے گا۔کوئی ترکیب، کوئی تدبیر، کوئی حکمت عملی تلاش کی جائے ورنہ یہ شعر بھی ہم نہیں پڑھ سکتے ہیں کہ
سلیقے سے ہوائوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS