اے- رحمان
آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک (سربراہ) مادھو راؤ سداشِو راؤ گولوالکر نے 1966 میں شائع ہوئی اپنی کتاب Bunch of Thoughts میں ہندو راشٹر کا نقشہ ترتیب دیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو خالص ہندو راشٹر کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے کر اس مسئلے کا یہ حل پیش کیا تھا کہ مسلمان یا تو ہندو معاشرے میں ضم ہو کر اس کا حصہ بن جائیں یا انہیں ملک سے نکال دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس نے ایک مسلم مخالف منصوبہ تشکیل دیا جس پر 2014 میں بی جے پی کے برسر اقتدار آتے ہی باضابطہ اور کھلم کھلا عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اس سلسلے میں اب تک کی پیش رفت کے کچھ سنگ میل دیکھیے:
28 جولائی 2020کو سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کی گئی جس میں تقاضہ کیا گیا کہ آئین ہند کی بیالیسویں ترمیم کے ذریعے اس کی تمہید میں شامل کیے گئے الفاظ ’ سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ کو آئین کی تمہید سے خارج کیا جائے کیونکہ ہندوستان کا ثقافتی محور ’دھرم‘ ہے مذہب نہیں۔ (یاد رہے منو سمرتی میں دھرم کی تشریح کرتے ہوئے اسے دیگر مذاہب کے تصور مذہب سے ممیّز کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ عرضداشت میں یہ صراحت نہیں کی گئی)۔ بالفاظ دیگر ملک کا سیاسی ڈھانچہ ’دھرم‘ پر مبنی ہے یا ہونا چاہیے۔
30 جولائی 2020 کو نئی قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے تحت وسائل انسانی کی وزارت کو صرف وزارت تعلیم کہا جائے گا ( یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ ’وسائل انسانی‘ کے فروغ کا مقصد سامنے رکھ کر تشکیل دی گئی وزارت کے تحت مسلمانوں کو کئی تعلیمی (بشمول وظیفہ،گرانٹ ،فیلوشپ وغیرہ) اور روزگار سے متعلق جو فوائد حاصل تھے وہ نئی پالیسی کے تحت دستیاب نہیں ہیں)۔ یہ ایک بہت اہم پیش رفت تھی کیونکہ ہندوتو کے ایجنڈا میں تعلیمی پالیسی اور طریقۂ کار کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ 2014 کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے جو منشور شائع کیا تھا اس میں تعلیم سے متعلق پارٹی کے منصوبوں کا ذکر تھا لیکن کسی بھی سیاسی جماعت یا مسلم تنظیم نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ بی جے پی کے پچھلے دور اقتدار میں اس وقت کے وزیر ثقافت مہیش شرما نے اپنی نئی دلّی واقع قیام گاہ پر ایک خفیہ میٹنگ کاا ہتمام کیا جس میں کئی ’ماہرین تعلیم‘ وغیرہ شریک ہوئے، اس میٹنگ میں منصوبہ بنایا گیا کہ ملک کی تاریخ دوبارہ لکھی جائے گی جو مہابھارت سے شروع ہوگی۔ بین الاقوامی نیوز ایجنسی رؤٹر (Reuter ) نے اس خفیہ میٹنگ کا بھانڈہ پھوڑا اور میں نے اپنے ایک مضمون میں اس کی تفصیل بیان کی تھی۔ 2019 میں ایک انگریزی کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ’اکیسویں صدی کے لیے آر ایس ایس کا نقشۂ سفر (روڈ میپ)‘۔ اکتوبر 2019 میں اس کتاب کا ممبئی میں اجرا کرتے ہوئے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں کہا، ’ہندو راشٹر ہمیں ورثے میں ملا ہے۔‘ان کا مطلب تھا کہ ہندو راشٹر تو ہمیشہ سے ہے۔ اس کتاب میں ملک کی تعلیمی پالیسی کو مکمل طریقے سے ’ہندیانے‘ (Indianize ) کے منصوبے کا ذکر تھا۔ NCERT کے ذریعے شائع کی جانے والی اسکولی نصاب کی کتابوں میں ہندوتو کے اصولوں پر مبنی تبدیلیاں کی گئیں ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔ کئی صوبوں میں نصابی کتابوں سے مشہور مسلم حکمرانوں جیسے ٹیپو سلطان اور اورنگ زیب وغیرہ کے نام یا تو نکال دیے گئے ہیں یا ان کے بارے میں کوائف و حقائق تبدیل کر کے انہیں غدار کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ تمام مسلم حکمرانوں کو ’ بیرونی حملہ آور‘ اور لٹیروں سے موسوم کر دیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) کو کھلی ہدایات دی گئی ہیں کہ کن موضوعات پر اور کن مصنّفوں کی کتابیں شائع کی جائیں یا نہ کی جائیں۔ مصنّفین کو مسوّدے کے ساتھ اس مضمون کا حلف نامہ دینا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس کی کتاب میں حکومت کے خلاف کسی قسم کا مواد نہیں ہے (اور خواہشمند ادیب اس کی بھی تعمیل کر رہے ہیں)۔
پچھلے سال ایک سینئر آئی پی ایس افسر ناگیشور راؤ نے اچانک ٹوئٹ پر ٹوئٹ کر کے مسلمانوں کے خلاف عجیب سنگین ماحول بنا دیا ۔ اس کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کو علم سے دور رکھ کر ان کے مذہب کو اوہام پرستی قرار دے کر ان کی تہذیب،تعلیم اور بنیادی شناخت کا Abrahamisation کر دیا گیا ہے یعنی ’ابراہیمیا‘ دیاہے۔ (یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو ’ابراہیمی مذاہب ‘کہا جاتا ہے)۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے ’اسلامیانا‘ کے بجائے ’ابراہیمیانا‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔ یہ وہی افسر ہے جس کو سی بی آئی میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا اور جس کا ڈائریکٹر سے مچیٹا ہو کر بات سپریم کورٹ تک پہنچی اور سی بی آئی کے حالات آج تک معمول پر نہیں آئے۔ کوئی بھی حاضر سروس افسر اس قسم کے بیانات نشر نہیں کر سکتا اور بعض سابقہ افسروں نے فوراً اس کے خلاف شکایت بھی ہوم منسٹر وغیرہ کو بھیجی، لیکن ظاہر ہے، کچھ نہیں ہوا۔
مسلم لڑکوں کی ہندو لڑکیوں سے شادی کے موضوع کو لو جہاد کا نام دے کر فتنہ برپا کیا گیا اور اس کے بعد مسلمانوں کی تجارت، پیشوں اور کئی دیگر معاشرتی سرگرمیوں سے ’جہاد‘ کا لفظ لاحق کر دیا گیا۔ کئی ریاستوں میں مبینہ لو جہاد کے خلاف قانون بنا دیے گئے۔ تبدیلیٔ مذہب کے مسئلے پر بھی مسلمانوں کے خلاف طوفان اٹھا ہوا ہے اور کھلے میں نماز، خصوصاً جمعہ کی نماز کے خلاف قانونی غیر قانونی ہر طرح کی کارروائیاں اور شرارتیں کی جا رہی ہیں۔
مسلمانوں کا ہجومی قتال (lynching ) اور ان کے خلاف تنفر انگیز بیانات اور تقاریر کا سلسلہ تو عرصے سے جاری تھا ہی لیکن گزشتہ دسمبر میں ہری دوار اور دہلی میں منعقد ’دھرم سنسدوں‘ میں مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان اور اس پر حکومت اور خاص طور سے وزیر اعظم کی مکمل خاموشی نے واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اور ان کا مستقبل کس خطرے سے دو چار ہے۔
درج بالا بظاہر غیر مربوط واقعات دراصل مسلمانوں کے خلاف ایک بہت منضبط اور خطرناک سازش کی کڑیاں ہیں۔ مسلمانوں پر بہت برا وقت آیا ہے جو بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا اور ملت اس وقت مطلقاً بے سر یعنی (headless) ہے۔ نہ رہبری ہے نہ رہنمائی۔موجودہ صورت حال اور آئندہ نا مساعد حالات پر غورو فکر تو کیا ان کا کہیں سنجیدگی سے ذکر تک نہیں۔سیاسی قیادت ناپید ہو چکی ہے۔ جو نام نہاد سیاسی شخصیات ہیں انہوں نے اقتدار کی کا سہ لیسی شعار کر کے اپنے لیے ایسی حدود طمانیت(comfort zones ) متعین کر لی ہیں جن سے وہ باہر نہیں آنا چاہتے اور نہ کبھی آئیں گے۔ اہم قومی مسائل سے عوام کی توجہ دور رکھنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا جس طرح مودی کی بین الاقوامی سطح پر ’پسندیدگی‘ اور شہرت کے بارے میں چیخم دھاڑ مچائے رکھتا ہے، ادھر مسلمانوں کے مسلکی اختلافات نے ردائے دین و ملت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور خود ساختہ رہنمائے ملت اپنے اپنے مسلکوں اور عقائد کے پیرو کاروں کی تعداد کے زعم میں سرکشی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ اتحاد ملت کی بات بھی کرنے والے پر ’جہالت‘ اور گمرہی کا لیبل چسپاں کر کے پر خلوص سینئر صحافیوں تک کو یہ کہہ کر سرزنش کرنے سے نہیں چوکتے کہ ’آپ بس اپنے کام سے کام رکھیے اور مذہبی معاملات ہم پر چھوڑ دیجیے۔‘ ان حالات میں واحد حل یہ ہے کہ تمام ذی فہم مسلمان ملاؤں کے چکر سے نکلیں اور اپنی عقل و تدبر سے کام لے کر اپنے معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں نیز مستقبل قریب میں در پیش خطرات کے سد باب کا طریقہ وضع کریں۔ وہ خطرات جن سے کروڑوں مسلمان بہت جلد رو برو ہوں گے۔ عالمی وبا نے مذاہب کی پول کھول کے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں پر بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ محض دعاؤں سے مصائب اور خطرات نہیں ٹلا کرتے۔ ہر مصیبت عمل کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر کم از کم تمام پڑھے لکھے مسلمان مذہبی اور مسلکی مسائل و اختلافات سے بالا تر ہو کرموجودہ اور آئندہ صورت حال کا تفکر و تدبر سے حل تلاش کریں، خواہ تدبر اپنے ذاتی مسائل میں ہی کیا جائے، تو ایک فکری اتحاد از خود پیدا ہو گااور فکری اتحاد سے تو بڑے بڑے انقلاب لائے جا سکتے ہیں۔ فکر و تدبر کا یہ عمل فوری طور پر شروع نہ کیا گیا تو محض 10 سال بعد ہندوستانی مسلمان خود کو دلتوں سے بھی کم درجے کا شہری پائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
[email protected]