اسکول میں اسکارف اور ڈریس کوڈ

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

صوبہکر ناٹک کے اڈوپی میں قائم ایک سرکاری کالج میں اسکول یونیفارم کے ساتھ سر پر اسکارف لگانے والی مسلم لڑکیوں کو کلاس روم میں داخل ہونے پر لگائی گئی پابندی کے بعد اسکارف نیز ڈریس کوڈ کا معاملہ گزشتہ کئی ہفتوں سے موضوع بحث بنا ہوا ہے، اسکارف لگانے والی لڑکیوں کو کلاس روم کے باہر بیٹھنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ مختلف رپورٹ میں پیش کی گئیں تفصیلات کے مطابق اڈوپی کے اس سرکاری اسکول میں کوئی ڈریس کوڈ نافذ نہیں ہے لیکن اسکارف کو اصولوں کی بے ضابطگی کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے حجاب کرنے والی طالبات کو تقریباً گزشتہ20دنوں سے کلاس روم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
دستور ہند کا آرٹیکل25بہت ہی واضح طور پر پورے ملک میں مذہبی آزادی کا بنیادی حق تمام شہریوں کو فراہم کرتا ہے، مذہبی آزادی کا یہ دائرہ عقیدے کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی پر بھی محیط ہے، یعنی ہمارا دستور ہم تمام شہریوں کو یہ دستوری حق فراہم کرتا ہے کہ ہم تمام شہری اپنے اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ اپنے اعمال کو بھی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں، اسکارف تمام ہی پیروکار مسلمانوں کے لیے عقیدے کے ساتھ ضروری عمل کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے1954میں سوامینار کے مقدمے میں اپنے تاریخی فیصلے کے دوران عقیدے و عمل دونوں کی بنیادی اہمیت اور آرٹیکل 25کے تحت دونوں کے احاطہ کو تفصیل کے ساتھ واضح کردیا تھا۔
مذہبی رسم و رواج کودستور و قوانین کی تدوین میں بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے، ہمارے ملک بھارت میں جب دستور بنایا جارہا تھا تو سکھ مذہب کی بنیادی تعلیمات کو دستور ہند کے آرٹیکل25میں واضح انداز میں شامل کیا گیا، آرٹیکل25کے تحت مذہبی آزادی کے ساتھ یہ بھی تحریر کیا گیا کہ سکھ مذہب کے ماننے والوں کو سر پر پگڑی باندھنے اور ساتھ میں کرپان لے کر چلنے کی آزادی ہوگی، آج ہمارے ملک کی پولیس اور فوج کے اداروں میں بھی سکھ مذہب کے ماننے والوں کو پگڑی باندھنے کی پوری اجازت اور آزادی ہوتی ہے۔ پگڑی کو لے کر انگلینڈ میں ایک بہت مشہور واقعہ ہوا، جس میں ایک سکھ کے اوپر42دفعہ ٹریفک پولیس نے جرمانہ نافذ کیا کیونکہ وہ سکھ پگڑی کے بعد ہیلمیٹ نہیں لگا سکتا تھا جب کہ موٹر سائیکل چلانے کے لیے ہیلمیٹ کا لگانا ضروری تھا، انگلینڈ حکومت کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو ملک کے قانون میں تبدیلی کردی گئی اور سکھ مذہب کی پگڑی کو قانونی اہمیت فراہم کی گئی جس کے بعد انگلینڈ میں ہیلمیٹ کی جگہ پگڑی کو تسلیم کرلیاگیا۔ مذہب اسلام میں حجاب نیز اسکارف کی بنیادی اہمیت کو ثابت کرنے کے لیے متعدد احادیث و قرآن کی آیتیں موجود ہیں جو مذہب اسلام کے پیروکاروں کو حجاب اور پردہ کرنے کے سخت احکامات دیتی ہیں، اختلاف رائے چہرے کے پردے کو لے کر ہوسکتا ہے لیکن سر کو ڈھکنے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔
امریکہ میں اسکارف اور حجاب کو لے کر ایک مخصوص پالیسی موجود تھی جس میں حجاب کو پالیسی کے خلاف تسلیم کیا گیا تھا، لیکن امریکہ کے سپریم کورٹ نے2015میں نو ججوں پر مشتمل دستوری بنچ میں اپنے مشہور فیصلے ’’اے این ایف‘‘ میں اسکارف کو اجازت دیتے ہوئے ’’لوک پالیسی‘‘ میں تبدیلی کردی تھی اور اسکارف کو شہری حقوق ایکٹ 1964کے خلاف تسلیم کیا، اس پالیسی کے تحت اسکارف لگانے والی سامنتھا الوف کو حجاب کی وجہ سے نوکری نہیں مل رہی تھی۔
اسکارف لگانے والی مسلم طالبات نے اڈوپی سرکاری کالج کی انتظامیہ کی طرف سے کیے جانے والے اس غیر منصفانہ فیصلے کو ماننے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ ان کا مذہبی حق ہے، جس حق کو دستور ہند بھی تحریری طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے، کالج انتظامیہ ان طالبات کا حجاب نہیں اترواسکتی ہے اور نہ ہی ملک کا کوئی قانون انتظامیہ کو یہ اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اسکول میں ایسا کوئی اصول موجود ہے۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت کی یہ طالبات اب روز کلاس سے باہر بیٹھ کر پڑھائی کرتی ہیں اور اپنا احتجاج درج کراتی ہیں۔ دستور ہند کے آرٹیکل14کے تحت تمام مذاہب کو یکساں آزادی اور قانون کا یکساں تحفظ فراہم ہونا تمام ہی شہریوں کا بنیادی حق ہے لیکن دستور کے اس بنیادی حق کے تئیں اسکارف اور حجاب کے معاملے میں مسلم اقلیتی طبقہ کی طالبات کے ساتھ تفریق اور بھیدبھاؤ کا رویہ اختیار کیا گیا۔
ایک جمہوری ملک میں جہاں تمام ہی مذاہب اور تہذیبوں کو اپنی مخصوص شناخت اور تشخص کا احترام نیز اس پر عمل کرنے کے دستوری حقوق حاصل ہوں نیز اقلیتی طبقات کے متعلقہ حقوق کے تحفظ کے لیے مخصوص وزارت و کمیشن قائم ہوں لیکن پھر بھی کسی ریاست میں اس طرح کی کوئی پابندی نافذ نہ ہونے کے باوجود کسی سرکاری اسکول یا کالج میں مسلم لڑکیوں کے ساتھ تفریق کا یہ امتیازی سلوک برتا جانا یقینا تشویشناک ہے۔ جب کہ دستور ہند کے آرٹیکل29کے تحت کسی بھی شہری کو کسی بھی ایسے تعلیمی ادارے میں مذہب کی بنیاد پر داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا ہے جو تعلیمی ادارہ حکومت کے زیرانتظام ہو، اڈوپی کا کالج ایک سرکاری کالج ہے، لیکن ابھی تک صوبائی حکومت یا مرکزی حکومت نیز اقلیتی و حقوق انسانی سے متعلق وزارت و کمیشن خاموش ہیں جن کی کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقلیتی طبقات کے ساتھ ہمارے ملک میں تفریق اور بھیدبھاؤ کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور یہ واقعات کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حکومت والے صوبوں میں ہی نہیں بلکہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے زیر اقتدار صوبوں میں بھی بڑھے ہیں۔ چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور راجستھان میں بھی انتہاپسندی اپنے عروج پر ہے۔ بہرحال ریاست کرناٹک میں بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سے اس قسم کے معاملات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے حجاب اور کالج یونیفارم پہنے کلاس کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی طالبات کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں ان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تفریق برتی گئی ہے۔
ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت رفتہ رفتہ سماج کے ہر ادارے میں اپنا زہر گھولتی جارہی ہے، اڈوپی کے سرکاری کالج میں جہاں ایک ہزار سے زائد لڑکیاں زیرتعلیم ہیں، اگر دس لڑکیاں سر پر اسکارف لگالیں تو اس سے نظم و ضبط میں کوئی رخنہ نہیں پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہمارے ملک کے کسی بھی ادارے میں ایسا کوئی ضابطہ موجود ہے، ایک مہذب سماج میں ایسا کوئی ضابطہ ممکن بھی نہیں ہونا چاہیے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں مختلف مذاہب اور تہذیب کو ایک ساتھ جمع کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے سماج میں ہر طبقے کو عزت فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارا ملک جو اپنی مختلف النوع مذہبی و سماجی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور پوری دنیا میں ہماری یہی سب سے اہم شناخت تھی لیکن سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے پوری دنیا میں یہ پیغام پہنچ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں صرف ایک ہی مذہب اور تہذیب کو جگہ ملے گی بقیہ تمام کی شناخت و تشخص کو ختم کردیا جائے گا۔
اگر اسکارف کے مسئلہ کو ایک معمولی اور چھوٹا معاملہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بڑے فیصلوں اور واقعات کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ اسکارف اور حجاب کا مسئلہ ایک ایسے مذہب کے عملی پیروکاروں کے لیے شناخت اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے جو اقلیت میں ہے، اقلیت کو ہر سماج میں خطرات اور اندیشے لاحق ہوتے ہیں، حکومت و عدلیہ کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کے ہر فرد کو یہ یقین دلائے کہ وہ پوری طرح محفوظ ہے۔ دستور ہند میں شامل باب سوم ’’شہری و بنیادی حقوق‘‘ اور اس میں شامل آرٹیکل کا مقصد یہی تو تھا کہ تحریری شکل میں حکومت اور عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ اب ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی ممکن نہیں ہوگی اور ہمارا دستور حکومتوں کے لیے ایک ایسا منظم ڈھانچہ تیار کرے گا جس میں کسی کا استحصال ممکن نہیں ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS