سیاسی وفاداری کی تبدیلی و عوام کی ذمہ داری!

0

ہندوستانجیسے بڑے جمہوری ملک کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں مختلف مذاہب، زبان و ثقافت کے لوگ باہمی اتفاق و اتحاد سے زندگی بسرکرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ’زرد صحافت ‘کی طرح ’زرد سیاست ‘کااثربڑھتا جارہا ہے، یہاں کی سیاسی سرگرمیاں بھی عوامی مسائل و ان کے تصفیہ کے بجائے مذہب کی بنیاد پر ہونے لگی ہیں۔ ایک مخصوص نظریہ کی حامی جماعت اپنے نظریہ کو غالب کرنے اور تمام دیگر نظریات کو مغلوب کرنے پر آمادہ ہے۔ عین الیکشن کے وقت اس طرح کے بیانات و کام ہونے لگتے ہیں جس سے محبت و ہم آہنگی کے فروغ کے بجائے منافرت کو بڑھاوا ملتا ہے۔اس سے ملک کے جمہوری نظام پر ضرب بھی لگتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سمیت شمال مشرق سے لے کرجنوب تک پانچ ریاستوںاترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور،گوا کے اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے۔ ان میں سے اترپردیش، اتراکھنڈ، گوا میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت ہے، جب کہ پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ برسراقتدار جماعت کو حکومت کی واپسی کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ یہ چیلنج اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب حالات مخالف ہونے لگتے ہیں۔برسراقتدار جماعت کے لیڈران دوسری جماعتوں کی جانب رخ کرنے لگتے ہیں۔ا س سے حکومت کی بدنامی کے ساتھ ساتھ پارٹی کی ساخ پر بھی بٹہ لگتا ہے۔ یہ امر ہر الیکشن سے قبل ہوتا ہے۔ سیاسی لیڈران اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ماہرین موسم کی طرح پہلے سے ہوا کا رخ دیکھ کر تبدیلی کرتے ہیں تو کچھ موقع پرست اقتدار کی تبدیلی کے بعد۔ ہر جانے والے لیڈر کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ بہت ’گھٹن ‘محسوس ہورہی تھی، اب راحت ملی۔ عوام بھی اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ برسراقتدار جماعت کے ساتھ رہ کر حکومت کا فائدہ اٹھاتے وقت نہ انہیں گھٹن محسو س ہوتی ہے اور نہ انہیں نا انصافی و مظالم یاد آتے ہیں۔پھر دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہی نظریات و ترجیحات ایک لمحہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ایسے ہی عین الیکشن کے دوران ایسی باتوں کو توجہ دی جاتی ہے جن کی بنیاد مذہب ، طبقہ، علاقہ پرستی یا تعصب ہو۔ جن سے کسی ایک طبقہ کو ظالم و دوسرے کو مظلوم بنا کراس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ ماضی کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب اس طرح کی سیاسی بازی گری ہوئی اور انتخابی نتائج رجحان کے برعکس آئے۔ ایک بار پھر اسی طرح کی کوششیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے شروع ہوچکی ہیں۔ جہاں سخت گیر جماعت کے حامی اپنی شعلہ بیانیوں میں مشغول ہیں وہی خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں مظلوم کی آواز بھی مذہب کی بنیاد پر اٹھاتی ہیں۔ عوام کو ان کا موقف اور ماضی میں ان کے طرز عمل پر نظر رکھتے ہوئے انتخابی عمل میں اپنی شراکت کو مضبوط کر نا ہوگا۔ گزشتہ چند سال کے سیاسی منظر نامہ پرا گر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے لیڈران الیکشن جیتنے کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ جس پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیا، اس کے راویتی ووٹروں کے تعاون سے وہ الیکشن میں کامیاب ہوئے ان سب کو چھوڑ کر وہ ذاتی مفاد میںسیاسی جماعت کو تبدیل کرلیتے ہیں۔ اب اصولی سیاست نہیں ذاتی مفاد کی سیاست ہورہی ہے۔ اب قربانی پیش کرنے کا جذبہ نہیں بلکہ آمدنی حاصل کرنے کی حسد و لالچ بڑھتی جارہی ہے۔ اب عوام کے لیے نہیں بلکہ خواص کے لیے سیاست کی جارہی ہے۔ الیکشن لڑا جارہا ہے۔ حکومتیں تشکیل پارہی ہیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ بڑا چیلنج عوام بالخصوص ووٹروں کے لیے ہے۔ وہ اپنے ووٹ کی قیمت کو پہچانیں اور اس کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کریں کہ وہ ان نمائندوں کو منتخب کریں گے، جو قوم وملک کے مفاد میں کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔مذہب و طبقہ کی بنیاد کے بجائے نمائندہ کی انفرادی صفات و کیفیات کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS