حکمراں سے حزب اختلاف تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کو ’فول پروف ‘نہیں سمجھتی ہیں لیکن اس کے باوجود انتخاب میں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے اورجیتنے والی سیاسی جماعت حکومت سازی کرتی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ آج حزب اختلاف کی جو سیاسی جماعتیں ای وی ایم کے استعمال نہ کیے جانے کا اصرار کررہی ہیں جب وہ حکومت میں تھیں توا نہوں نے بھی ای وی ایم پر ہی اعتماد ظاہر کیاتھا اور آج کی حکمراں جماعت نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ای وی ایم کی مخالفت اور حمایت کا یہ منظر نامہ بدلتا رہتا ہے۔ اس بدلتے منظر نامہ میں کوئی چیز برقرار رہتی ہے تو وہ ہے ای وی ایم سے چھیڑچھاڑ کا الزام۔یہ الزام کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں لگاتی ہیں اور معاملہ عدالت تک بھی پہنچتا رہا ہے۔لیکن اب اس معاملہ میں ایک نیا موڑ آگیا ہے۔اس بار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے آئینی جواز کو ہی چیلنج کیاگیا ہے اورعدالت عظمیٰ نے اس پر سماعت کیلئے رضامندی بھی ظاہر کردی ہے۔عدالت نے عوامی نمائندگی قانو ن کی دفعہ 61 اے کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی مفادعامہ کی عرضی کو فہرست میں شامل کرنے پر اتفاق کیاہے۔
عوامی نمائندگی قانون کی اس دفعہ کی وجہ سے ہی ملک میں انتخابات کیلئے بیلٹ پیپر کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں متعارف کرائی گئی تھیں۔چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے وکیل ایم ایل شرما کے دلائل کی سماعت کی اور کہا کہ وہ اس معاملہ کو مقدمات کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرے گی۔ اپنی حیثیت میں یہ عرضی دائر کرنے والے عدالت عظمیٰ کے وکیل ایم ایل شرما کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 61اے پارلیمنٹ نے منظور نہیں کی تھی اس لیے اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔وکیل ایم ایل شرما کا کہنا ہے کہ پانچ ریاستوں اترپردیش، منی پور، اتراکھنڈ، گوااور پنجاب میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مفاد عامہ کی عرضی کی سماعت ضروری ہے۔ نیز یہ کہ انتخابات بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی کرائے جانے کا التزام کیاجائے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی ابتدا سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیاجائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہر انتخاب میں ای وی ایم وجہ نزاع بنا ہے۔ابھی کچھ دن پہلے ہی مایاوتی نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی سرکاری مشینری کا غلط استعمال نہیں کرتی ہے اور ای وی ایم میں ہیرا پھیری نہیں کرتی ہے تو بی جے پی یہ الیکشن ہار جائے گی۔ای وی ایم پر سوال اٹھانے والوں میں خود کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس حتیٰ کہ بھارتیہ جنتاپارٹی بھی شامل ہیں جو موقع بموقع ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے انتہائی قدآور لیڈرا ور سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی نے تو2009 کی اپنی ایک پریس کانفرنس میںیہ اعتراف کیا تھا کہ ای وی ایم فول پروف نہیں ہیں اور مشینوں سے چھیڑ چھاڑ سے انتخابات متاثر ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی کے ہی ایک لیڈر جی وی ایل نرسمہا راؤ نے ای وی ایم سے چھیڑچھاڑ اور اس کے ذریعہ ہونے والی مبینہ دھاندلی ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک کتاب تک لکھی تھی اوراس کا نام ہی رکھا تھا ’ڈیموکریسی ایٹ رسک ڈیو ٹو ای وی ایمز‘ یعنی ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی وجہ سے جمہوریت کو لاحق خطرہ۔‘
حکمراں اور حزب اختلاف دونوں ہی کی جانب سے جب ای وی ایم پر تنازع اور شک و شبہ پیدا کیاجارہا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام کے دل مطمئن ہوں اورانہیں یقین ہوجائے کہ ان کا ووٹ اسی کو مل رہاہے جس کیلئے وہ ای وی ایم کا بٹن دبارہے ہیں۔ جمہوریت میں انتخاب اور ووٹنگ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ عوام کسی خاص سیاسی جماعت یا فرد پرا پنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں حکومت سازی کا اختیار سونپتے ہیں۔ جب انتخاب کا یہ عمل ہی مشکوک ٹھہرتا ہو اور اسے مشکوک ٹھہرانے میں خود سیاسی جماعتیں پیش پیش ہوں تو بہتر ہے کہ انتخاب کے اس عمل پر ہی از سر نوغور کیاجائے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ ماضی کی طرف لوٹتے ہوئے بیلٹ پیپر کا ہی استعمال کیا جائے جیسا کہ امریکہ اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں ہو رہا ہے۔
ویسے بھی اب ای وی ایم کے آئینی جواز کو ہی چیلنج کردیاگیا ہے اور عدالت بھی اس پر غور کرنے کیلئے تیار ہوگئی ہے۔ آئندہ ہونے والی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے تناظر میںیہ معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عرضی گزار اپنے دعوئوں اور دلیل سے عدالت کو قائل کر پاتا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ ای وی ایم کا تنازع ایک نیا رخ لے چکا ہے اوراس سلسلے میں جلد از جلد کوئی ایسی کارروائی ہونی چاہیے جس پر تمام فریق متفق ہوجائیں۔
[email protected]
ای وی ایم کا آئینی جواز!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS