اسلاموفوبیا کے عہد میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ

0

عبدالماجد نظامی
حجاب پر پابندی کے سلسلہ میں ان دنوں کرناٹک کا ایک کالج لگاتار سرخیوں میں ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ طویل مدت سے ہندوستانی مسلمانوں پر یہ بیجا اور بے بنیاد الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ مسلم لڑکیوں کو جدید تعلیم سے آراستہ ہونے کا موقع اس لیے فراہم نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ خود اسلامی عقیدہ اس راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ اسلام پر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس دین نے ایمان و عقیدہ کے مسائل بیان کرنے سے بھی قبل تعلیم کے حصول کو ترجیح دی ہو، اس پر ایسا الزام لگادیا جائے۔ ویسے یہ واہمہ کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہی مسلم بچیوں کو جدید تعلیم سے آراستہ ہونے سے روکتا ہے، اس کا آغاز انگریزی سامراج کے عہد میں ہوا تھا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس برطانوی سامراج کے خلاف جنگ لڑنے والے ہندوستان کے نام نہاد ’’روشن خیال‘‘لیڈران نے بھی اس سامراجی نظریہ کو قبول کرلیا اور اسی فکر کے حامل بن گئے۔ وہ ماننے لگے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہی مسلم بچیوں کو جدید تعلیم سے آراستہ ہونے میں مانع ہے۔ ہمارے ان ’’روشن خیال‘‘لیڈران نے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ وہ اپنے طرز فکر کا معروضی جائزہ لیں اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی اس خام خیالی کو دور کریں۔ اس مسئلہ کو میڈیا کے ذریعہ بھی لگاتار بڑھاوا دیا جاتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اس کی بڑی قیمت مسلم بچیوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ آج جب کہ مسلم بچیاں جدید تعلیم کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں داخل ہوکر اپنی صلاحیت اور لگن کا ثبوت پیش کر رہی ہیں تو انہیں ہر طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ریاست کرناٹک کے اڈوپی ضلع میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں اڈوپی کالج میں مسلم لڑکیاں اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک صرف اس لیے روا رکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنی جدید تعلیم پورے اسلامی تشخص کی رعایت کے ساتھ جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ اڈوپی کالج نے مسلم لڑکیوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ انہیں حجاب پہن کر کلاس میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کالج انتظامیہ کے اس عمل سے واضح طور پر اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ اسلام پر یہ الزام لگانا کس قدر بے بنیاد اور بودا تھا کہ وہ اپنے ماننے والوں کو جدید تعلیم سے لیس ہونے کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ مسلم لڑکیوں پر ذہنی دباؤ بنایا جا رہا ہے اور انہیں ان کے دین و ایمان پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تعلیمی ترقی کا سدباب ہورہا ہے اور انہیں فکری نشوو نما کے مواقع سے محروم کیا جارہا ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ملک کے تمام دیگر طبقوں کی طرح اپنی تہذیب کی پاسداری کے ساتھ تعلیم و ترقی کے مراحل طے کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے برعکس اڈوپی کالج انہیں مجبور کر رہا ہے کہ اگر وہ دوسری طالبات کی طرح زندگی میں کامیاب ہوکر ملک کی ترقی میں اپنا کردار نبھانا چاہتی ہیں تو انہیں اپنے ایمان و عقیدہ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ ملک کے مختلف اسکولوں میں سوریہ نمسکار جیسے عمل کو اسٹوڈنٹس پر تھوپنے کے پیچھے بھی یہی منشا کارفرما نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا دستور ہند کی صریح خلاف ورزی کے زمرہ میں داخل ہوتا ہے کیونکہ ہمارا دستور ہر شہری کو اپنے دین و مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ تو پھر یہ بیجا پابندی کیوں عائد ہو رہی ہے؟
اڈوپی کالج کی مسلم طالبات کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ٹیچرس انہیں کلاس میں بیٹھنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دے رہی ہیں کیونکہ وہ حجاب لگاکر کلاس میں بیٹھنا چاہتی ہیں۔ الماس نامی ایک طالبہ کے بقول ان کی ٹیچر نے واضح الفاظ میں ان سے کہا تھا کہ انہیں تب تک کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک وہ اپنا حجاب اتار نہیں دیتی ہیں۔ کالج کی چھ مسلم طالبات حجاب کے مسئلہ پر احتجاج کر رہی ہیں اور انہیں اپنی کلاس کے باہر بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔31دسمبر سے ہی انہیں غیرحاضر گردانا جا رہا ہے جب کہ وہ روزانہ کالج جاتی ہیں اور کلاس کے باہر بیٹھتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا منفی اثر ان کے سالانہ حاضری ریکارڈ پر پڑے گا جس کی وجہ سے انہیں امتحان میں بیٹھنے سے محرومی کی صورت بھی پیش آسکتی ہے۔ یہ سیدھے طور پر ان کے کریئر کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ امید افزا بات یہ ہے کہ مسلم طالبات اپنے حقوق کی بازیابی کے سلسلہ میں پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ کو اپنی ضد چھوڑنی ہوگی کیونکہ حجاب پہننا ان کے عقیدہ کا حصہ ہے اور دستورہند اس سلسلہ میں تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسی لیے اس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم حجاب پہننے کی اجازت اس لیے نہیں دے سکتے کہ یہ کالج یونیفارم کا حصہ نہیں ہے۔ کالج کے ہیڈ رودرا گوڑا میڈیا میں یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ اسٹوڈنٹس کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ یہ یونیفارم کا جز نہیں ہے۔ ان کے بقول اس سلسلہ میں وہ وزارت تعلیم کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔
اس پورے معاملہ کا سچ یہ ہے کہ ریاست کرناٹک میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار آئی ہے تب سے لگاتار اقلیتوں کے مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی حقوق پر تیشہ زنی کا کام کر رہی ہے۔ تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون سازی کا مسئلہ ہو یا سرکاری کالجوں تک میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا معاملہ ہو ہر جگہ ہندوتو کے ایجنڈے کو قوت کے زور پر نافذ کرنے کا عام رواج ہوگیا ہے۔ اسی کالج میں چند دنوں قبل اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ممبران بھگوا رومال پہن کر مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے کے خلاف اپنی تکثیری ذہنیت کا ثبوت پیش کرچکے ہیں۔ کالج انتظامیہ کو اس سلسلہ میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کالج انتظامیہ کو سمجھنا چاہیے کہ تعلیمی ادارے تنگ نظری پھیلانے کے مراکز نہیں ہوتے بلکہ ایک آزاد اور بے خوف ماحول میں فکر و نظر کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اڈوپی کالج پر بھی یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اسٹوڈنٹس کی مذہبی حساسیت کا خیال رکھے اور حجاب پر پابندی کا سلسلہ ختم کر دے۔ اسلاموفوبیا کا یہ مرض ہندوستان میں مغرب سے آیا ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں ایسی تنگ نظری کبھی نہیں رہی ہے۔ کالج انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہندوستانی تہذیب کی اس روشن تاریخ کی حفاظت کرے جس میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا معیوب سمجھا جاتا رہا ہے اور اسی لیے ’سرو دھرم سمبھاؤ‘ کو یہاں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ یہی ملک سے سچی محبت کی دلیل ہوگی۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS