بڑھتی عدم رواداری، نفرت، پولرائزیشن کی سیاست اور جمہوریت کو درپیش مختلف طرح کے چیلنجز کے درمیان ملک کی قدیم ترین سیاسی پارٹی کانگریس نے 137ویں سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک میں درجنوں سیاسی جماعتیں سامنے آئیں، مقامی اور ریاستی سطح پر بھی درجنوں علاقائی سیاسی جماعتیں بنائی گئیں جو گزرتے وقت کے ساتھ قومی سطح پر پہنچ گئیں۔ ذات پات اور مذہبی تحفظات کی بنیاد پر بھی کئی سیاسی جماعتیں بنائی گئیں، مخصوص نظریات کے حوالے سے بھی کئی ایک پارٹیوں نے جنم لیا۔کئی اتحاد بنے اور بگڑے،حکومت سازی کیلئے مختلف نظریات کی حامل جماعتوں نے اتحادقائم کیا اور حکومت بھی بنائی جب کہ کچھ جماعتوں کا نخل آرزو شادابی کا ہی منتظر رہا۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان سیاسی جماعتوں نے ملک کی جمہوریت کو مستحکم بنانے اور مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت میں کم و بیش اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ان سب کے درمیان کانگریس ملک میں جمہوریت کو برقراررکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ان137برسوں کے دوران کوئی ایسالمحہ نہیں گزرا ہے جب ہندوستان کی سیاست کانگریس کے وجود سے پاک رہی ہو۔ لیکن اب کانگریس اپنے وجود کی بقاکیلئے لڑائی لڑرہی ہے۔2017 میں پنجاب اور2018میں راجستھان،چھتیس گڑھ اور گجرات اسمبلی انتخابات میں جھنڈے گاڑنے والی قومی سیاسی جماعت نے مئی 2019کے لوک سبھا انتخابات میں اپنا سارا مینڈیٹ گنوا دیا۔ مدھیہ پردیش میں صرف ایک سیٹ ملی تو گجرات اور راجستھان کی لوک سبھا سیٹوں سے پارٹی کا صفایا ہوگیا۔2020کے ضمنی انتخابات میں بھی کانگریس کی بساط سمٹ گئی۔2021میں مغربی بنگال اسمبلی سے بھی کانگریس کا مکمل صفایا ہوگیا۔ اس دوران ’کانگریس مکت ہندوستان‘ کیلئے بھی تسلسل کے ساتھ نعرے لگتے رہے۔ کہیںکانگریس کو توڑا جاتارہا تو کہیں کانگریس کے لیڈران خود باغی ہوکر دوسری پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے۔اب پارٹی کی داخلی جمہوریت پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں اور اسے ایک خاندان کے گرد چلنے والی سیاسی پارٹی کا طعنہ بھی دیا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ کانگریس نے اندرا گاندھی کے زمانے سے ہی خاندانی لیڈروں کو پسند کیا ہے۔ ایسے لیڈر جو گاندھی خاندان کی جی حضوری میں پیش پیش رہے وہ منظر نامے پر رہے باقی پس منظر میں۔ پارٹی کے اندر اختلاف رائے کو وقعت نہیں دی گئی۔ حاشیہ برداروں کے اشارے پر بڑے بڑے مقامی لیڈروںکو بے توقیر کیاگیا۔لیکن کیا کانگریس کی سچائی بس اتنی ہی ہے؟
نہیں حقیقت یہ ہے کہ کانگریس ہندوستان کیلئے صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی ایک تحریک، ایک نظریہ رہی ہے۔کانگریس اور ہندوستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔آزادی سے قبل تحریک آزادی کی تاریخ میں کانگریس کے کردار کوکم کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود اس سے انکارممکن نہیں ہے کہ فرنگیوں کے زیر نگیں غلام ہندوستان سے سیکولر اور خود مختارجمہوریہ ہندوستان تک کا سفر کانگریس کے بغیر ناممکن تھا۔
پھر کیا وجہ ہوئی کہ کانگریس آج اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ’کانگریس مکت ہندوستان‘ کے نعرے لگائے جانے لگے ہیں اور سرگرم سیاست کے منظر نامہ سے کانگریس دھیرے دھیرے کرکے غائب ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نوجوان لیڈران پارٹی سے اپنا دامن کیوں چھڑارہے ہیں؟ معمر اور سینئر لیڈران پارٹی قیادت پر سوال کیوں اٹھارہے ہیں ؟
اس کیلئے خود کانگریس کو اپنا احتساب کرنا پڑے گا۔کانگریس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے لیڈروں کا اقتدار کیلئے پارٹی چھوڑ جانا صرف کانگریس کا نقصان نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا نقصان ہے۔ اقتدار کے لالچ میں کانگریس کے اقدار اور نظریات سے انحراف کی قیمت کانگریس کے ساتھ ساتھ اس ملک کوچکانی پڑرہی ہے۔کانگریس کی خالی جگہ کو پر کرنے کیلئے سامنے آنے والی سیاسی جماعتوں کی تنگ اور خود غرضانہ سیاست کی وجہ سے ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچ رہاہے۔مذہب، ذات پات، فرقہ واریت اور منافرت کی سیاست نے ہندوستان جیسے کثیر المذاہب اور کثیرالجہت ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا ہے۔ عوام کے درمیان بڑھتی اس خلیج کو صرف وہی جماعتیں پرکرسکتی ہیں جن کا ملک کے آئین اور جمہوریت پر مکمل یقین ہوا وروہ اس کے نفاذ کا جذبہ بھی اپنے اندر رکھتی ہوں۔
137ویں یوم تاسیس کے موقع پر کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے آئین اور جمہوریت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے جس عزم کا اظہار کیا ہے، وہی کانگریس کا اصل نظریہ اور سرمایہ ہے اور اس پر تمام کانگریسیوں کو متحد ہوکر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں بڑھتی عدم رواداری، نفرت، پولرائزیشن کی سیاست اور جمہوریت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے کانگریس کامضبوط ہونا ضروری ہے۔
[email protected]
مضبوط کانگریس ہندوستان کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS