غیرشائستہ زبان قابل افسوس

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہر مذہبی رہنما سے،خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس کے پاکیزہ اخلاق وشمائل میں حلم وبرداشت،استقامت،صبر، عبدیت، بندگی، راست گفتاری، حسن سلوک، دشمنوں کے ساتھ رحم، عفو ودرگزر، صلح میں نرمی اور ملائمت جیسی خوبیاں شامل ہوں گی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ و ہ کبھی انسانیت سوز دل آزاری اور ایذا رسانی کی حرکت کر ہی نہیں سکتا مگر کچھ عرصہ سے چندسیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوںا ورثقافتی و مذہبی تنظیموں سے وابستہ معدودے چند افراد نے ارادی طور پر یا غیر ارادی طور پر (اللہ یعلم الغیب) قابل ملامت افراد، ان کے افعال و اقوال بے جاکی تعریف وتوصیف کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے حالانکہ ان کی تعداد نہ کے برابر ہے۔ مذہبی رہنماؤں کی نرم گفتگو و شیریں زبانی کی تو مثالیں دی جاتی تھیں مگر اب چند افراد کی لغزش زبان اور لہجۂ تلخ نے سنجیدہ افراد کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے ’یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا،اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے‘۔
ہمارا آئین سب کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن شائستگی کو قربان گاہ کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مذہبی رہنماؤں،سیاستدانوں اوراصحاب منصب کی تو بات ہی کیا بدزبانی یا بدکلامی اور غیرشائستہ زبان کا استعمال تو کسی کو بھی زیب نہیں دیتا لیکن اگر کوئی منصب دار،خواہ اس کی وابستگی کسی مذہبی ادارے،تنظیم یا جماعت سے ہو،اس طرح کی روش اختیار کرتا ہے تواس کے بارے میں یہی کہا جائے کہ ’او شایستگی این مقام ندارد‘ یعنی وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے یا اس منصب کی قابلیت نہیں رکھتا۔
مذہبی رہنما تو کسی کی بے وفائیوں، ظلم وزیادتی پر بھی حسن سلوک اور برائی کے بدلے نیکی سے پیش آتے ہیں۔کسی بھی ایسے شخص کا کسی بھی ایسے شخص کے بارے میں نا زیبا الفاظ استعمال کرنا جس سے اٖ س کے خیالات نہ ملتے ہوں متعلقہ شخص کی اخلاقی گراوٹ کا بین ثبوت ہے۔ اگر کسی شخص کو معاشرہ میں حیثیت سربفلک حاصل ہو اور جس کا پوری دنیا احترام کرتی ہو،خواہ وہ گاندھی جی ہوں یا کوئی دیگر ہستی، اس کی سیاسی،سماجی،مذہبی یادیگر نوعیت کی کسی سوچ کے بارے میں تنقید کرتے وقت انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔’ الف ‘کی ’ ب‘ کے بارے میں کچھ بھی رائے ہو سکتی ہے لیکن ’ الف ‘کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ ’ب ‘کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کرے۔ یہ فعل بے جااس عظیم ہستی کی تقصیر نہیں بلکہ اس شخص کی تذلیل ہے جس نے اس کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس بارے میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہر شخص کو کسی بھی شخص یا کسی موضوع کے بارے میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ زبان پر قابو نہ رہے۔متاثرین کو اپنے جذبات مجروح ہونے کا اظہا کرنے کی پوری اجازت ہے لیکن جذبات کی رو میں بہہ کر شائستگی کو بالائے طاق رکھنے کی اجازت نہیں۔ ایسا کرنے والا کبھی بھی قانون کی گرفت میں آسکتا ہے۔جب گاندھی جی کے سامنے یہ بات آئی کہ اسلام تلوار سے پھیلا تو انھوں نے اس ضمن میں اپنی اس رائے کا اظہار کیا ’میرے اس تجسس نے کہ وہ فرد واحد کون ہے جو کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے اور وہ کس کردار کا حامل ہے اور اس نے کیسی زندگی گزاری ہے مجھے یہ جانکاری حاصل کرنے کا موقع دیا کہ یہ شخص محمدؐ ہے اور میں پہلے سے بھی زیادہ اس بات کا پوری طرح قائل ہوگیا کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلابلکہ یہ تو پیغمبراسلامؐ کی سادگی، انہماک، رفیقوں اور پیروؤں کے تئیں خلوص، قول کی پابندی، شجاعت، بے خوفی، خدا کی ذات میں یقین کامل اور اپنے مشن کے تئیں صدق دلی کا نتیجہ تھا۔‘لیکن آج بھی کچھ لوگ گاندھی جی کی اس فکر سے متفق نہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اس فکر کے حامی و مخالف ہمہ وقت ایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں۔
مذہبی رہنماؤں سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کو فروغ دینے میں مدد کریں گے جس میں لوگوں کے مابین صحیح میل جول اور حقیقی محبت پروان چڑھے۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنما تو ہمیشہ ظلم و استبداد کی مخالفت کرتے ہیں اور ہر شعبۂ حیات میں اصول نصفت کے اطلاق اور انصاف کی نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہیں،یہاں تک کہ وہ حکومت کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی سازی کے عمل میں بھی امن اور باہمی آہنگی و یگانگت جیسے امور کو ملحوظ خاطر رکھے۔ یہی جذبۂ اتحاد چھوٹے سے چھوٹے ملک کو ایک عظیم مملکت کا مرتبہ دلا سکتا ہے۔ کسی بھی مذہب کی تنقید برائے تنقید کا کوئی جواز نہیں، ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم ہر مذہب کی اچھی باتوں کی طرف نظر ڈالیں اور کبھی بھی اس بات کی کوشش نہ کریں کہ کسی مذہب میں عیب نکالیں۔ اگر کسی ایک مذہب کا ماننے والا دوسرے مذہب کا بھی مطالعہ کرے تو اس سے نہ صرف اس کے علم میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کی مثبت سوچ کو بھی مزید تقویت حاصل ہوگی اور وہ اپنے مذہب کو اور دیگر مذاہب کو بہتر طریقے سے سمجھ سکے گا۔ ضرورت مباحثے یا موازنے کی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مذاہب کے پیشوا، رہنما اور پیروکار ایک جگہ اکٹھے ہوں، ایک دوسرے کی بات کو سمجھیں اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے تمام مذاہب کے درمیان یگانگت پیدا ہو اور باہمی رواداری ویکجہتی کی راہ ہموار ہو۔ اگر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہیں رہیں گے،ایک دوسرے کے جذبات کا خیال نہیں رکھیں گے اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کریں گے تو اس دنیا کو Global Village کہنا بے معنی ہوگا۔
ہمارے مذہبی رہنما اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر اس شخص کاجو صدق دلی سے کسی مذہب کی پیروی کرتا ہے نقطۂ کمال عبدیت اور بندگی ہے۔ انسان دین ودنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے اعزاز و مرتبہ پر کیوں نہ فائز ہو ا ور اس کا مذہبی و علمی دائرہ میں کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ مقام ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ خدا پر یقین رکھتا ہے، اس کی غیر مشروط اطاعت اور مکمل سپردگی، اس کی ذات پر یقین اور صرف اسی سے تمناؤں کی تکمیل کی امید اور حریفوں کی سازشوں اور کوششوں سے حفاظت پر غیرمتزلزل اعتقاد رکھتا ہے اور اس میں اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں نقدِ جاں اور ہرآرام کو قربان کرنے کا جذبہ درجۂ کمال تک پایا جاتا ہے تو یہی بندگی کا کمال اور عبدیت کی آخری منزل ہے۔
عالم ارواح سے گاندھی جی کا پیغام امن و اتحاد
میرے پیارے بھارت واسیو !
ہمیں ہر مذہب کی مقدس کتابوں سے اور اخلاقیاتی ادب سے حلم وبرداشت اور صبر واستقامت کا پیغام ملتا ہے۔ انسان کا دینی یا دنیوی اعتبار سے کوئی بھی مرتبہ ہو اور اسے کسی مخصوص صورت حال میں مراعات ہی کیوں نہ حاصل ہوں، اسے انسان اور انسان میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔ بڑا پن کمزور کو سہارا دینے میں ہے نہ کہ اس پر ستم ڈھانے میں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS