ترقیاتی کاموں کے بجائے پھرمذہبی نفرت کی سیاست

0

محمد حنیف خان

جمہوری نظام ایسے راستے پر نکل کھڑا ہوا ہے،جہاں اس کی قدریں اب بے قدر ہوچکی ہیں،کیونکہ سیاستداں حصول اقتدار کے اخلاقی و غیر اخلاقی ہر طرح کے حربے استعمال کرنے کو اپنا جبلی حق تصور کرتے ہیں۔اترپردیش میں چند ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں،جس کی بنیاد ترقیات ہونی چاہیے تھی،ہر پارٹی کو ترقیاتی کاموں کو لے کر عوام کے درمیان جانا چاہیے تھا،مگر ایسا ہونے کے بجائے مذہب کی سیاست شروع کردی گئی ہے۔سیاست دانوں کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ مرکز میں سات برس اور ریاست میں ان کے پانچ برس کے اقتدار کے نتیجے میں اترپردیش غریبی کے معاملے میں تیسرے پائیدان پر پہنچ گیا ہے، انہوں نے اتنے ترقیاتی کام کیے کہ نیتی آیوگ کے مطابق یہاں لوگ صحت،غذائیت اور تعلیم کے فقدان میں زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ان کی نظر میں ترقی یہ ہے کہ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے،اب متھرا کی باری ہے بس اگلی بار اقتدار کا انتظار ہے یعنی ملک کو امن و سکون سے نہیں رہنے دینا ہے،ہر وقت نفرت میں اسے جلانا ہے۔اگر آئندہ اسمبلی انتخابات ایسے ہی مسائل کے ارد گرد رہے جیسا کہ امید ہے تو یہ ہماری اور ملک کی بدقسمتی ہوگی۔اس وقت ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا جو عالم ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے اور ہر شخص پریشان ہے،ہاتھوں کو کام نہیں مل رہا ہے اور گھر کے برتن خالی ہیں،مہنگائی نے کھانے کپڑے کو مشکل بنادیا ہے،بچوں کی پڑھائی پر خطرات کے بادل ہیں،جس پر سیاست داں صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں اور خوابوں کے جال میں عوام کو پھنساتے ہیں۔
اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 7.00فیصد ہے۔ شہری علاقے میں یہ 8.21فیصد ہے جبکہ دیہی علاقے میں6.44فیصد ہے۔سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کے مطابق اترپردیش میں 4.8فیصد ہے۔سرکاری ادارہ نیتی آیوگ کے مطابق بہار، جھارکھنڈ اور اترپردیش اس وقت ملک کی سب سے غریب ریاستیں ہیں۔بہار میں مرکز کی اقتدار والی پارٹی حکومت میں حصہ دار ہے جبکہ اترپردیش میں بی جے پی حکومت میں ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 51.91فیصد لوگ بہار میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،جبکہ جھارکھنڈ میں 42.16فیصد عوام کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔اسی طرح اتر پردیش جو ملک کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست ہے وہ بھی غریب ریاستوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں 37.79فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مدھیہ پردیش چوتھے نمبر پر ہے یہاں بھی بی جے پی ہی اقتدار میں ہے جہاں36.65فیصد لوگ غربت میں جی رہے ہیں۔ اس فہرست میں میگھالیہ، کیرالہ، گوا، سکم، تمل ناڈو شامل ہیں۔نیتی آیوگ کے مطابق یہ اعداد وشمار آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشیٹیواور یواین ڈی اے پی کے ذریعہ تیار عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کے مطابق تیار کیے جاتے ہیںجس میں خاندانی حالات اور ضروری اشیاء کے فقدان کی صورت حال دیکھی جاتی ہے، ہندوستان میں صحت،تعلیم اور معیار زندگی یعنی ’لیونگ اسٹیٹس‘ کو بنیاد بنایا جاتا ہے،جس میں غذائیت، اطفال شرح اموات،زچہ بچہ کی دیکھ بھال، اسکولی تعلیم، اسکول حاضری، کھانے پکانے کے ایندھن، صفائی، پینے کے لائق پانی کی دستیابی،بجلی،مکان املاک اور بینک کھاتے شامل کیے جاتے ہیں تاکہ پوری طرح سے منظر نامے کو دیکھا جاسکے۔
مذکورہ اعداد و شمار میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے،اب اگر اس بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اترپردیش میں عوام کی زندگی کی سطح ملک میں تیسرے مقام پرہے، جہاں غذائیت کی کمی ہے، صحت،تعلیم کا برا حال ہے۔اسکول میں بچوں کی حاضری کم ہے۔یہ اعداد و شمار خود حکومت کے ہیں۔اس کے باوجود ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہر طرف ترقیات کی گنگا بہانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔وزیر اعظم متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اترپردیش صرف ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی پہچان بن کر ابھرا ہے۔لیکن کورونا کے دور میں جس طرح کے حالات تھے، اس کے بعد لوگ اس طرح کے سوالات اٹھانے لگے ہیں کہ کیا ترقی یہی ہے کہ لوگ صحت خدمات کے بغیر زندگی گزاریں،اپنوں کی لاشوں کو کندھوں پر لیے لیے پھریں، مریضوں کے علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں کے باہر پڑے رہیں،بچے کم غذائیت کی وجہ سے بڑے ہونے سے پہلے مر جائیں،عورتیں دوران زچگی دم توڑ دیں؟نیتی آیوگ تو اتر پردیش کی یہی حالت بتا رہا ہے،اس نے اسی لیے اس کو سب سے زیادہ غریب ریاستوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔سیاست دانوں کو اس بارے میں غور کرنا چاہیے کہ ان کی باتوں اور زمینی حقیقت میں کتنا تضاد رہتا ہے۔ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ حکمراں زمین کی سچائی کو سامنے رکھ کر باتیں کر یں اور اسی کی بنیاد میں وہ عوام کے درمیان جائیں۔ اترپردیش میں چند ماہ بعد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں،جس میں کامیابی کے لیے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم دونوں کافی محنت کررہے ہیں مگر کبھی کبھی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن کے برعکس خود سرکاری اداروں کی رپورٹیں ہوتی ہیں، لیکن سامعین کو حقائق کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا اور باتیں ایسی خوشنما ہوتی ہیں کہ لوگ خوش ہوتے ہیں اور یہی خوشی انتخابی نتائج میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے اور عوام کی غربت دور کرنے کے بجائے ایک بار پھر اس کو مذہب کی آگ میں جھونکنے کی تیاری ہو رہی ہے۔جس طرح سے وزیراعلیٰ نے مذکورہ بیان دیا اور نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد نے ٹوئٹ کرکے لکھا: ’اجودھیا کاشی شاندار مندر کی تعمیر جاری ہے متھرا کی تیاری ہے‘ جس کے بعد رائٹ ونگ کی تنظیموں نے متھرا میں 6دسمبر2021کو کارسیوا کا اعلان کردیا۔یہ تاریخ بھی اس لیے متعین کی گئی کیونکہ بابری مسجد اسی دن شہید کی گئی تھی۔اگرچہ ضلع انتظامیہ نے کسی بھی طرح کے پروگرام اور اجتماع پر پابندی لگاتے ہوئے وہاں دفعہ 144نافذ کردی ہے مگر بابری مسجد کی شہادت بھی تو ان ہی حالات میں ہوئی تھی،اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے تو تحریری طور پر وعدہ کیا تھا مگر کیا ہوا دنیا نے سب کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔اس لیے ملک کو اگر دوبارہ کشت و خون سے بچانا ہے تو حکومت کو آنکھیں کھول کر مذہب کی سیاست کے بجائے ترقیات کی سیاست کرنی چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے اور عوام کی اسی میں بھلائی ہے،ورنہ اقتدار تو مل جائے گا مگر ملک کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ملک کی سول سوسائٹیوں اور انسان سے محبت کرنے والوں کو اس سیاسی نظام کی مخالفت میں سامنے آنا چاہیے۔ سیاسی اخلاقیات پر ان سیاستدانوں کو مجبور کرنا چاہیے۔اسی طرح عدلیہ جو سب سے سپریم پاور رکھتی ہے، اس کو ملک کو نفرت کی سیاست سے بچانے کے لیے آگے آکر الیکشن میں مذہب کی سیاست پر پوری طرح سے پابندی لگا دینی چاہیے۔ اسی طرح عوا م کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مذہب ان کا پیٹ نہیں بھرتا،ان کے بچوں کو تعلیم دے کر ان کا مستقبل نہیں سنوارتا،بیماری میں ان کو علاج نہیں مہیا کراتا،اس لیے مذہب کی سیاست کرنے والوں کے حق میں ووٹنگ کے بجائے ترقیات کی بنیاد پر ووٹنگ کرنا چاہیے تبھی ملک بچ سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS