آلوک جوشی
پیسے کی متعدد شکلیں دیکھی گئی ہیں اور دیکھی جارہی ہیں۔ اناج اور مصالحوں کے لین دین سے شروع ہوا کاروبار سونے، چاندی، تانبہ، پیتل اور ایلیومینیم کے سکوں سے ہوتا ہوا اسٹیل کے سکوں اور کاغذ کے نوٹوں تک پہنچ چکا ہے۔ کچھ ممالک میں پلاسٹک کے نوٹ بھی چل رہے ہیں، لیکن انہیں بھی کاغذی کرنسی ہی سمجھا جاتا ہے۔ کاغذی کرنسی، یعنی وہ کرنسی جس کی قیمت اس پر لکھے ہوئے ایک وعدے میں مضمر ہے۔ ہندوستان کے نوٹوں پر بھی ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کی طرف سے ایسا ہی وعدہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
حالاں کہ اس کے بعد کریڈٹ کارڈ اور اب ڈیجیٹل والیٹ بھی آگئے ہیں، جن میں نہ کسی نوٹ کی ضرورت ہے، نہ کسی وعدے کی۔ لیکن ان کے پیچھے بھی آپ کی رقم ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنی ہوتی ہے یا کریڈیٹ کارڈ پر خرچ ہونے کے بعد ادا کرنی پڑتی ہے۔ کرنسی کی صدیوں کی تاریخ میں جو سب سے بڑا ردوبدل ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں پہلے لوگ آپس میں لین دین کے لیے چیزیں استعمال کرتے تھے، وہیں اب حکومتوں نے اس کام کو ہاتھوں میں لے لیا ہے اور ہر ایک لین دین کے لیے ایک پیمانہ ہے، جسے مختلف ممالک کی کرنسی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے سینٹرل بینک اپنے اپنے ملک کی کرنسی چلاتے ہیں اور دوسرے ممالک کی کرنسی کے ساتھ اس کا تال میل(synergy )بھی رکھتے ہیں۔
لیکن اب دنیا آگے بڑھی تو حساب میں پیچ بھی بڑھ گئے۔ کچھ لوگوں کے ذہن میں آیا کہ ہمارے آپسی لین دین میں حکومت کا دخل کیوں ضروری ہے؟ کیوں نہ ایک ایسی کرنسی بنائی جائے جو راست آپس میں لین دین کا ذریعہ بنے۔ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہ رہے۔ اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس کے مختلف جواز ہوسکتے ہیں۔ شاید یہ وجہ بھی ہے کہ یہ خیال پہلی مرتبہ 1992میں آیا تھا، لیکن دنیا کی پہلی کرپٹوکرنسی بٹ کوائن کی شروعات ہوئی 2008میں بنی ایک ویب سائٹ سے۔ اور اس کے بعد بھی پہلا ٹرانزیکشن ہونے میں تقریباً چار ماہ کا وقت لگ گیا۔
بٹ کوائن کی شروعات کا کریڈٹ ستوشی ناکاموتی کو دیا جاتا ہے۔ یہ ایک جاپانی نام ہے۔ لیکن اصل میں یہ انسان کون ہے، کوئی ہے بھی یا نہیں، یہ ابھی تک راز ہے۔ بٹ کوائن کی شروعاتی قیمت کیا تھی، وہ تو اب سوچنا بھی مشکل ہے، لیکن دو مثالیں ہیں، جن سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے۔ مارچ 2010میں ایک یوزر نے پچاس ڈالر میں 10ہزار بٹ کوائن نیلامی کے لیے رکھے، مگر اس قیمت پر کوئی خریدار نہیں مل پایا۔ دنیا میں بٹ کوائن کا پہلا اصلی سودا فلوریڈا میں 22مئی، 2010کو ہوا، جب ایک خریدار نے 10ہزار بٹ کوائن دے کر دو پیزا خریدے۔ سوچئے، اس خریدار کو اِس وقت کیسا محسوس ہوتا ہوگا، جب ایک بٹ کوائن کی قیمت تقریباً 56ہزار ڈالر، یعنی تقریباً 42لاکھ روپے ہے۔
آپ سوچیں گے کہ اتنا مہنگا بٹ کوائن ہمارے کس کام کا؟ تو یہ جان لیں کہ اس کی یہی خاصیت ہے۔ آپ کو پورا کوائن یا سکہ نہیں خریدنا ہے۔ آپ اس کا دسواں، سوواں، ہزارواںیا لاکھواں حصہ بھی خرید سکتے ہیں۔ یعنی آپ کہیں گے کہ مجھے ہزار دو ہزار روپے کے ہی کوائن لینے ہیں تو اس کا ایکسچینج یا ایجنٹ اتنی رقم کا ہی ٹکڑا آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردے گا۔ اور پھر آپ روز اس کی قیمت دیکھ کر خوش اور غمگین ہوتے رہیں گے۔ غمگین اس لیے کہ اس کی قیمت جیسے چڑھتی ہے، ویسے ہی گرتی بھی ہے۔ اسی سال اپریل میں یہ تقریباً 47لاکھ روپے کا تھا اور جولائی میں 22لاکھ روپے پر پہنچ گیا۔
بٹ کوائن ایسی واحد کرنسی نہیں ہے۔ بازار میں ایسی درجنوں کرپٹوکرنسی آچکی ہیں۔ اور قیمت زیادہ یا کم ہونے کے علاوہ بھی اس میں رِسک اس لیے زیادہ ہے، کیوں کہ ابھی یہ کاروبار پوری طرح بے لگام ہے۔ اگر سامنے اتنی بڑی کمائی کا لالچ ہو، تو رِسک نظر آنا بند ہوجاتا ہے۔ اسی چکر میں کورونا کے دور میں جب چاروں طرف تباہی اور پریشانی تھی، تب ہندوستان میں بھی کروڑوں لوگ کرپٹوکرنسی کے چکر میں پھنس گئے اور کرپٹوکاروبار میں مصروف لوگ اب انہی کو سامنے کرکے حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس کاروبار کے لیے شفاف اصول و ضوابط بنائے۔
مگر بات اتنی آسان نہیں ہے۔ اگر کرپٹوکرنسی دنیا بھر میں پھیل رہی ہے تو دوسری طرف اس پر اٹھنے والے سوالات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی اور نشہ کے کاروبار میں اس کے استعمال کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اور اب تک کا ریکارڈ ہے کہ اس میں لگا پیسہ اچانک ہوا ہوجانے کا خطرہ بھی مسلسل برقرار ہے۔ ریزرو بینک تو کئی مرتبہ انتبادہ دے چکا ہے کہ اس کاروبار میں خطرہ ہے اور ابھی اس پر سنجیدہ بحث ہوئی نہیں ہے۔
لمبی کھینچ تان کے بعد آخرکار حکومت اب کرپٹوکرنسی پر قانون بنانے جارہی ہے۔ اور اب یہ واضح ہے کہ ذاتی کرپٹوکرنسی پر پابندی لگائی جائے گی۔ لیکن یہ سوال باقی ہے کہ استثنیٰ کے طور پر جن کرپٹوکرنسی کو چلانے کی اجازت دی جائے گی، ان کے لیے کیا دلیل استعمال ہوگی اور ان کے رِسک کو کیسے قابو میں رکھا جائے گا؟ اور جو کرپٹوکرنسی بند ہوجائیں گی، ان میں جن لوگوں نے پیسے لگارکھے ہیں، ان کو اس سے نکلنے کے لیے کتنا وقت ملے گا، ملے گا بھی یا نہیں ملے گا، اور کیا اُن پر کسی طرح کا جرمانہ یا ٹیکس بھی لگ سکتا ہے؟ انہی خدشات کی وجہ سے ہندوستان میں قانون آنے کی خبر ملتے ہی کرپٹوکرنسی کے بازار میں تیز گراوٹ کا جھٹکا بھی آیا۔ حالاں کہ پھر اس میں اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کرپٹوکرنسی قانون آنے کے بعد ریزرو بینک ایک ڈیجیٹل کرنسی بھی جاری کرنے جارہا ہے۔ خبر ہے کہ یہ طے کرنے کا اختیار بھی ریزرو بینک کے پاس ہی رہے گا کہ ملک میں کون سی کرپٹوکرنسی چلے گی؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت ہند کرپٹوکرنسی کے بڑے تذبذب کو حل کرنے کے بجائے اسے کچھ اور وقت کے لیے ٹال رہی ہے، اور ذمہ داری ریزرو بینک کے اوپر ڈالی جارہی ہے۔ یہ سوال قائم رہے گا کہ کسی ایسی چیز کو کرنسی کے طور پر منظوری کیسے دی جاسکتی ہے، جس کی کوئی حقیقی قیمت ہے ہی نہیں؟ اور یہ سوال اس قانون کے آنے کے بعد بھی قائم رہنے والا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)