وقتی تدبیر نہیں،مستقل حل ضروری

0

حکومت کی نت نئی تدابیر کے باوجود قومی راجدھانی دہلی میں فضائی آلودگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ کبھی ’اوڈ ایوین‘ تو کبھی ’ ریڈ لائٹ آن گاڑی آف‘ مہم تو کبھی تعمیراتی سرگرمیوں پر روک لگانے کا اعلان کیاجارہاہے۔ آج بھی ریاستی حکومت نے دہلی میں فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح کو روکنے کیلئے اگلے احکامات تک تمام تعمیرات اور انہدام کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ہے ۔اس کے ساتھ ہی اندرون دہلی غیر سی این جی اور غیر الیکٹرک گاڑیوں کا داخلہ بھی روک دیا گیا ہے ۔
دیوالی کے بعد سے دہلی اور اطراف کی فضاانتہائی زہر آلود ہوگئی ہے۔ دہلی کا اے کیو آئی یعنی ایئرکوالٹی انڈیکس انتہائی خطرے کے نشان کو بھی عبور کرگیاتھا اورا ب بھی یہ انڈیکس اس کے ارد گرد ہی ہے۔ حکومتی کوششوں کے باوجود یہ سنگین خطرہ قابو میں نہیں آرہا ہے۔ بچوں کو اس خطرے کی زد سے بچانے کیلئے کمیشن فار ایئر کوالٹی مینجمنٹ کے اگلے حکم تک اسکول کالج بھی بند کردیے گئے، تعمیراتی سرگرمیوں پر بھی روک لگائی گئی لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حکومت ایک بار پھر یہی کوشش دوہرا رہی ہے ۔ لیکن اب تک کے تجربات سے یہ نہیں لگ رہا ہے کہ یہ نتیجہ خیز ثابت ہونے والا ہے ۔بلکہ اس بندی اور روک سے کئی اور طرح کے مسائل بھی پیدا ہوں گے ۔ سب سے پہلا بڑا اور سنگین مسئلہ تو تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ کارکنوں کے روزگار کا ہے۔ تعمیرات پر پابندی کی وجہ سے لاکھوں کارکنوں کے سامنے روزی روٹی کا سنگین مسئلہ کھڑا ہوجائے گا ۔ یہ مزدورا ور کارکن کورونا بحران اور لاک ڈائون کی وجہ سے پہلے بھی اس سنگین مسئلہ سے دوچار ہوچکے ہیں، اب نئے سرے سے ایک بار پھر ان کے کام پر روک لگانے کی وجہ سے ان کی حالت مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ہر چند کہ اس با ر حکومت نے متاثرہ تعمیراتی کارکنوں کیلئے5ہزار روپے کی اعانتی رقم دینے کا بھی اعلان کیا ہے لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔حکومت نہ تو تعمیراتی کام مسلسل روکے رکھ سکتی ہے اور نہ ہی مزدوروں کو مستقل بنیادوں پر رقم دی جاسکتی ہے ۔
ا ب تک کی معلومات سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ آلودگی کی تمام تر اقسام میں فضائی آلودگی انتہائی خطرناک آلودگی ہے اوراس کی وجہ سے ماحولیات، ہوااور پانی، قدرتی وسائل، انسان، پیڑ پودے، حیوانات حتیٰ کہ چر ند و پرندبھی بہت تیزی سے متاثر ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی پر فضائی آلودگی کے خطرناک مضمرات ہوتے ہیں اور اگر اسے بروقت قابو میں نہیں کیاگیا تو یہ آہستہ آہستہ پورے نظام فطرت کو تباہ کردیتی ہے۔ اس آلودگی کی وجہ سے ہی ہماری فضا میں آکسیجن کی مقدار بھی روزبروز کم ہورہی ہے ۔چند دہائی قبل تک فضا میں آکسیجن کی مقدار24فیصد درج کی گئی تھی جواب دو فیصد تک گھٹ کر 22 فیصد ہوگئی ہے ۔صاف ستھری ہوا اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے جانداروں کی قبل از وقت اموات ہورہی ہیں ۔ زمین کا فطری توازن بگڑ رہاہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی قدرتی آفت آتی رہتی ہے۔ کبھی بے وقت آندھی طوفان تو کبھی زمین کھسکنے کے واقعات تو کبھی تیزابی بارش اس آلودگی کی کوکھ سے ہی جنم لے رہی ہے ۔ زمین کا درجۂ حرارت بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اگر آلودگی کی رفتار یہی رہی اور آنے والے دنوں میں زمین کا درجہ حرات 2سے3فیصد بھی بڑھ گیا تو برف کے بڑے بڑے گلیشیر پگھل کر زمین پر سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں اور پوری زمین کو ہی تباہ کرسکتے ہیں ۔
اتنے بڑے اور سنگین خطرات سے نمٹنے کیلئے جو تیاری ہونی چاہیے وہ توکہیں نظر نہیں آرہی ہے ۔تعمیرات پر وقتی پابندی، گاڑیوں کو وقتی طور پر روک دینے سے ممکن ہے کہ کچھ راحت مل جائے لیکن پھر جب ان کا سلسلہ شروع ہوگا تو فضا میں زہر کا وہی تناسب ہو جائے گا۔اس لیے اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کیے جانے کی ضرورت ہے ۔یہ مستقل حل سب کی شراکت سے ہی ممکن ہے ۔تو انائی کے روایتی ذرائع کو ختم کرتے ہوئے نئے اور متبادل ذرائع کے استعمال پر زوردیاجاناچاہیے ۔حکومت کی سطح پر جہاں اس کیلئے قانون سازی کی جانی چاہیے اور آلودگی کنٹرول سرٹیفکیٹ کا التزام کیا جاناچاہیے، وہیں عوامی آگاہی کا پروگرا م بھی وضع کیا جانا چاہیے۔ اسکولوں کے نصاب میں آلودگی کاباب شامل کرکے آنے والی نسلوں کو آلودگی کے مضر اثرات سے واقف کراتے ہوئے ان کی ذہن سازی کی جانی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ہی فضا میں زیادہ سے زیادہ آکسیجن کی مقدار برقرار رکھنے کیلئے پیڑ پودوںاور جنگلات کے کٹائو پر مکمل روک لگاکر وسیع پیمانہ پر شجر کاری مہم پر بھی توجہ دینی ہوگی ۔آلودگی کے اس مستقل خطرہ پر بند باندھنے کیلئے ضروری ہے کہ وقتی تدبیر پر پیٹھ تھپتھپانے کے بجائے ہم اس کے مستقل حل کی فکر کریں، اس کے بغیر ہم زمین کو جانداروں کیلئے محفوظ نہیں بناسکتے ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS