افغانستان:سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھنا ہوگا

0

صبیح احمد

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوبارہ قیام کے بعد سے اقتصادی صورتحال دن بہ دن خستہ ہوتی جا رہی ہے جس کا اثر مجموعی طور پر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑنے لگا ہے۔ اس غیر معمولی معاشی بحران نے اب انسانی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شہریوں کی یہ حالت زار ’انسانوں کی پیدا کردہ‘ ہے۔ اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد بین الاقوامی برادری نے جس طرح پابندیاں لگائیں، اسی کے نتیجے میں افغان عوام اس حال کو پہنچے ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے انسانی حقوق کو بنیاد بنا کر طالبان حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا، خاص طور سے اسلام پسند حکومت کے دور میں عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ پر سوالات اٹھائے گئے۔ طالبان نے ملازمتوں کے بہت سے مواقع عورتوں کے لیے بند کر دیے اور اکثر عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے حصول پر پابندی لگا دی۔ چونکہ طالبان حکومت کو سفارتی طور پر جائز تسلیم نہیں کیا گیا، اس لیے افغانستان کو ملنے والی اربوں ڈالر کی بیرونی امداد معطل ہوگئی اور 10 ارب سے زائد افغان اثاثے منجمد کر دیے گئے جو زیادہ تر امریکہ میں ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے طالبان نہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دے سکے اور نہ ہی اشیائے ضرورت درآمد کر سکے۔
پابندیوں کے تسلسل اور بیرونی امداد کے منجمد ہونے سے افغانستان میں انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مقامی آبادی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی دشوار تر ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی ریڈکراس کمیٹی کے ڈائریکٹر آف آپریشنز ڈومینک سٹل ہارٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’قندھار کے سب سے بڑے اسپتال کے بچوں کے وارڈ میں جا کر بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی بے نور آنکھوں اور مایوس والدین کی بے بسی کی حالت دیکھی،یہ صورت حال میرے لیے سخت غم و غصے کا باعث بنی۔‘ اس ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ نے متنبہ کیا تھا کہ اگر مزید فنڈز فراہم نہ ہوئے تو اس موسم سرما میں افغانستان کی تقریباً 4 کروڑ آبادی کو 2 وقت کی روٹی نصیب نہیں ہو گی، یعنی تقریباً آدھی آبادی بھوکی ہو گی۔ عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ ایندھن، خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ افغانستان کے بحران کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ قراردادوں اور عمومی اقتصادی پابندیوں کو سامنے رکھتے ہوئے امداد دہندگان افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوئے لیکن اس میں بھی وقفہ آ گیا۔ اس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی بچانے والی امداد سے بھی افغان عوام محروم ہو گئے۔
افغانستان میں ایسے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جن کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا اور وہ فاقہ کشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالے ہوئے طالبان کو 100 دن ہو چکے ہیں۔ ان 100 دنوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ملک کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک منجمد ہیں۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کی امدادی سرگرمیاں رک چکی ہیں۔ ملک میں بینکنگ کا نظام کام نہیں کر رہا ہے کیونکہ اس کے رابطے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے منقطع ہیں۔ جب تک بیرونی دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی، رقوم کا لین دین شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ نقدی کا ہے۔ رقم نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ کاروبار بند ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ جن کا روزگار ختم نہیں ہوا، انہیں مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں کیونکہ اداروں اور آجروں کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں ہے۔ دن بہ دن بگڑتے ہوئے حالات ملک کو تیزی سے ابتری کی جانب دھکیل رہے ہیں اور فاقہ کشی کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اب اپنے بچے بیچنے کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ایک اور انتہائی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھوک نے والدین کو کم سن بچیاں بیاہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن واشما فروغ کہتی ہیں کہ یہ کہانیاں سن کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ شادی نہیں ہے۔ یہ بچیوں کے ساتھ ریپ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ افغان عوام کی موجودہ خستہ حالی پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ ملک کی بگڑتی صورتحال پر پوری دنیا متفکر ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتہ خاص طور پر خطہ کے اہم ممالک چین، ہندوستان اور روس کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل سہ فریقی اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ افغان بحران کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیاجس میں فوری اور کسی رکاوٹ کے بغیر انسانی اعانت کی فراہمی کا مطالبہ کیاگیا۔ طالبان پر بھی زور دیا گیا کہ حالیہ بین الاقوامی اور علاقائی اجلاسوں میں پیش نظر رکھے گئے افغانستان سے متعلق امور کی پاسداری اور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی حرمت کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ ان میں خاص طور پر افغان خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ، ملک کو جامع سیاسی نظام کے ذریعہ چلانا اور دہشت گردی کے علاوہ منشیات سے نمٹنے کے مؤثر اقدامات کرنا شامل ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جذبہ خیر سگالی کے طور پر ہندوستان کی جانب سے واگھہ بارڈر کے ذریعہ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور زندگی بچانے والی ادویات کی نقل و حمل کی اجازت دے دی ہے۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کی حکومت پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ واگھہ بارڈر کو ہندوستان کی طرف سے امداد اور تجارت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے، تاہم اسلام آباد کی جانب سے اس معاملے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ رہی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ افغانستان ہندوستان کے ساتھ زمینی راستے سے براہ راست تجارت نہیں کر سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مخدوش سیاسی حالات ہیں۔
بہرحال معاشی ابتری میں گھرے ہوئے افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ اب جب کہ سردیوں کا آغاز ہو چکا ہے، ملک تیزی سے قحط کی جانب بڑھ رہا ہے اور 2022 کے وسط تک افغانستان کے 97 فیصد گھرانے خط افلاس سے نیچے چلے جائیں گے۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کر دیے ہیں جس سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور والدین کو ان کی شادی کی فکر ستانے لگی ہے۔ اگرچہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ آخرکار لڑکیوں کے اسکول کھول دیں گے لیکن انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ کب اور کن شرائط پر لڑکیوں کو دوبارہ اسکول جانے کی اجازت ہوگی۔ عطیہ دہندہ عالمی ادارے اپنی سرگرمیاں شروع کرنے سے قبل یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ طالبان لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں مگر قحط شرائط پوری ہونے کا انتظار نہیں کرتا اور اس کا سامنا عام لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان میں معاشی بہتری، طبی دیکھ بھال اور تعلیم کے مستقبل کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔ دنیا کی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں کچھ کریں۔ فی الحال صرف عالمی امداد سے ہی وہاں کی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ انسان دوست اقدامات کی راہ میں سیاسی مصلحتوں کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS