چیلنج بنتی سائبر دھوکہ دہی

0

وجے پرکاش سریواستو

مڈل کلاس اور اَپر کلاس کی آبادی میں گنے چنندہ لوگ ہی ایسے ہیں جن کے پاس موبائل فون نہیں ہے اور جن کے پاس ہیں، ان میں سے بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جن تک پہنچنے کی کوشش سائبر کریمنلز نے نہ کی ہو۔ انہی میں سے کچھ نہ کچھ ان مجرموں کی چالوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں جرائم کی دنیا میں سائبر مجرموں کی ایک نئی دنیا کھڑی ہوگئی ہے۔ دنیا کی بات تو الگ، اکیلے ہندوستان میں ہی روزانہ ہزاروں لوگ سائبر دھوکہ دہی کا شکار ہورہے ہیں۔ اپنے گھر میں بیٹھے ہم سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں، لیکن سائبر مجرم حفاظت کے اس یقین کو جھٹلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ بلاشبہ موبائل فون ایک ورسٹائل ٹول کے طور پر آج ہر ہاتھ میں ہے، لیکن اس کے تئیں تھوڑی سی بھی عدم توجہی ہمیں خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ کسی کے فون پر ایک پیغام آتا ہے یا گھنٹی بجتی ہے، تحریری یا زبانی بات چیت شروع ہوتی ہے اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکل گئے۔ دھوکہ دہی کے ایسے واقعات ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ پر بھی ہوجاتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دنیا میں سائبر جرائم میں تیزی سے ہورہے اضافہ نے سب کی نیند اڑا دی ہے۔
معاشی سائبر کرائم میں اضافہ کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں مجرم کو اس طرح کی دھوکہ دہی کرنے کے لیے کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی کونے سے اس دھوکہ دہی کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی چور کو چوری کرنی ہے تو اسے ہر مرتبہ نئے ٹھکانے کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور الگ حکمت عملی بنانی پڑتی ہے۔ سائبر دھوکہ دہی کے لیے ان سب کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی اس کے لیے ترکیبوں کو بار بار بدلنا پڑتا ہے۔ دھوکہ دہی کے مختلف طریقوں میں سے ایک یا زیادہ کو بار بار الگ الگ لوگوں پر آزمایا جاسکتا ہے۔ کچھ کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو کچھ میں مجرم بے قصور لوگوں کا پیسہ ہڑپنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ فائنانس کی دنیا کے ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ہی دھوکہ دہی کرنے والوں نے نئے نئے طریقے نکال لیے ہیں۔ فزیکلی نقدی کا لین دین کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ الیکٹرانک فنڈز کی منتقلی نے لی ہے۔ لوگ موبائل والیٹ کا بڑھ چڑھ کر استعمال کررہے ہیں۔ ان سب سے عام لوگوں کے لیے خرید و فروخت کرنا، پیسہ بھیجنا اور منگاناآسان ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سائبر ٹھگوں کی بھی موج ہوگئی ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سائبرجرائم کے شکار شخص یا پولیس کے لیے مجرم تک پہنچنا اور لوٹے گئے پیسوں کو مجرم سے وصول کرپانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے کہ معاشی سائبر کرائم سے نمٹنے کا سسٹم درست نہیں ہے۔
بینک صارفین کو سائبر دھوکہ دہی سے بچانے کے مقصد سے ہی بینکوں نے ’اپنے صارفین کو جاننے‘ کا سلسلہ شروع کیا تھا جو کے وائی سی کے نام سے مقبول ہے۔ کے وائی سی بینکوں اور ان کے صارفین دونوں کے فائدہ کے لیے ہے۔ لیکن سائبر ٹھگوں نے یہاں بھی راستہ نکال لیا اور کے وائی سی اپ ڈیٹ کرنے کو ٹھگی کا ذریعہ بنالیا۔ بینک کا نمائندہ بن کر یہ ٹھگ لوگوں کو فون کرکے بتاتے ہیں کہ کے وائی سی اپ ڈیڈ نہیں ہونے کے سبب ان کا اکاؤنٹ یا کارڈ بند ہونے جارہا ہے، صارفین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ اکاؤنٹ یا کارڈ کی ڈیٹیل لے کر اس کا پیسہ اڑا لیتے ہیں۔ اب تو فیس بک کے ذریعہ بھی معاشی سائبر دھوکہ دہی زوروں پر ہے۔ یہاں پروفائل منتخب کرکے لوگوں کو دوستی یا شادی کے پیغام بھیجے جاتے ہیں۔ پھر انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے لیے تحفہ بھیجا گیا ہے۔ بعد میں کوئی کسٹم افسر بن کر فون کرتا ہے کہ کسٹم ڈیوٹی یا جرمانہ کے طور پر فلاں رقم فلاں اکاؤنٹ میں جمع کرادیں۔ یا جہاں دو فیس بکس یوزرس جن میں سے ایک حقیقت میںسائبر ٹھگ ہوتا ہے، کے درمیان بات پیار و محبت تک آگئی ہو، ٹھگ اپنی نام نہاد مالی مشکلات کا حوالہ دے کر پیسہ منگاتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کو نوکری اور گھر سے کام کا آفر دینے کے بہانہ بھی آن لائن رقم وصول کی جارہی ہے، وہ بھی ایک ایک شخص سے کئی قسطوں میں۔ لوگوں کو لبھانے والے جیسے چھوٹ یا گفٹ کوپن کے آفر بھیجے جاتے ہیں جس میں ایس ایم ایس یا وہاٹس ایپ پر بھیجے گئے لنک پر کلک کرنے یا کیوآر کوڈ اسکین کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ان ترکیبوں سے لوگوں کے موبائل فون کو ہیک کرکے ان کے اکاؤنٹ، کارڈ یا والیٹ سے پیسے نکال لیے جاتے ہیں۔
سائبر ٹھگ لوگوں کو فرضی ای میل بھیج کر بھی چونا لگارہے ہیں۔ ایسے ای میل دیکھ کر لگتا ہے کہ صحیح میں انہیں کسی بینک، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، دیگر سرکاری ایجنسی یا کسی بڑی کمپنی کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ ان میں بھی ایسا لنک ہوتا ہے جسے آپ کے کلک کرتے ہی ٹھگوں کو آپ کے میل یا کمپیوٹر میں نقب لگانے کا راستہ مل جاتا ہے۔ یہاں آپ سے تاوان کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ وراثت میں ملی رقم کا ایک حصہ یا لاٹری کی رقم دینے کے بھی فرضی پیغامات کے ذریعہ بھی لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے۔ اگر کوئی انٹرنیٹ پر کسی کمپنی کے کسٹمر سروس سینٹر کا نمبر تلاش کررہا ہے تو اسے بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہاں بھی سائبر ٹھگوں نے اپنے نمبر ڈال رکھے ہیں جس کا حقیقی کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نوئیڈا سے لے کر ممبئی اور جھارکھنڈ تک میں ایسے کال سینٹروں کا پردہ فاش ہوا ہے جو غیرملکی شہریوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے سائبر ٹھگی کے ذریعہ رقم وصول کرتے تھے۔
معاشی سائبر کرائم کا نیٹ ورک اتنی وسعت اختیار کرچکا ہے کہ اس کی ایک لغت بھی بن چکی ہے جس میں اپنے مخصوص معنی والے فشنگ، وِشنگ، اسکیمنگ، کلوننگ جیسے الفاظ موجود ہیں۔ بینک، کریڈٹ کارڈ کمپنیاں، موبائل والیٹ سروس فراہم کرنے والے، غیربینکنگ فائنانس کمپنیاں وغیرہ سبھی صارفین کو آگاہ کرتی رہتی ہیں کہ وہ انجان لوگوں کے ساتھ اپنی فائنانشیل معلومات شیئر نہ کریں۔ لوگوں کو سائبر دھوکہ دہی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے بھارتیہ ریزرو بینک نے بھی بڑے پیمانہ پر اشتہاری مہم چلائی ہے۔ بازار اور صارفین کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرنے والی جرمن کمپنی ’اسٹے ٹسٹا‘ (Statista)کی ہندوستانی برانچ کی جانب سے کرائے گئے سروے میں یہ سامنے آیا ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً 52فیصد لوگ نہیں جانتے کہ وہ سائبر دھوکہ دہی سے خود کو کیسے محفوظ رکھیں۔ ویسے بھی مالیاتی خواندگی (financial literacy)کے معاملہ میں ہمارا ملک پسماندہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
سائبر جرائم کے تیزی سے بڑھتے گراف کو دیکھتے ہوئے سائبر سیکورٹی ایکسپرٹس کی ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پرائسواٹرہااُسکوپرس کے 2022کے لیے ڈیجیٹل ٹرسٹ اِن سائٹ سروے میں شامل 82فیصد کمپنیوں نے اگلے برس سائبر سیکورٹی پر زیادہ رقم خرچ کرنے کی بات کہی ہے۔ یہ سب اچھے اشارے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ عام آدمی کے لیے سائبر سیکورٹی سسٹم کو مضبوط کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہماری پولیس فورسز کا بہت چھوٹا حصہ ہی سائبر کرائم سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سائبر دھوکہ دہی کی رپورٹ کرانے جانے پر شکایت درج کرنے کی بجائے متاثرہ شخص کو اکثر بینک، کارڈ کمپنی وغیرہ سے رابطہ کرنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ چنندہ معاملات میں ہی لوٹی ہوئی رقم کو پولیس کی مستعدی سے واپس پایا جاسکا ہے۔ ظاہر ہے، سائبر دھوکہ دہی سے خود کو بچانا ذمہ داری ہماری ہی ہے۔ ہمیں ہی الرٹ اور ہوشیار رہنا ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS