ڈاکٹر محمد قاسم انصاری
عہد حاضر میں سر سید کے تعلیمی،سماجی،سیاسی، مذہبی،ثقافتی، علمی و ادبی نظریات کی معنویت اور اہمیت اس معنی میں بڑھ جاتی ہے کہ تقریباً ڈیڑھ صدی کاعرصہ گذر نے کے باوجود ہم آج مذکورہ تمام میدانوں میں اپنے برادران وطن سے نسبتاً سب سے زیادہ پیچھے ہیں ۔ہماری پسماندگی کا سوال جوں کا توں برقرار ہے۔سیاسی طور پراس پسماندگی کے لئے کبھی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرا یا گیا تو کبھی تقسیم وطن یا امتیازی سلوک کا رونا رویا گیا۔ہو سکتا ہے یہ وجوہات کسی حد تک درست ہوں لیکن سرسید کی زندگی کا مطالعہ ہمیں اس کے برعکس سوچنے پر مجبور کر تا ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات کے مقابلے میں سر سید کے عہد کا ہندوستان بہت سخت و مشکل ترین تھا۔حالات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور نا گفتہ بہ تھے۔ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی۔1857 کی جنگ کا عتاب اور قہر سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہی ٹوٹا۔انگریزوں کے نزدیک سب سے زیادہ مسلمان ہی باغی تھے۔اس پر آشوب دور میں ایک چراغ روشن ہوا جسکی ضیا سے پورے ملک میں اجالا ہوا۔سر سید اپنی ذاتی زندگی بہت عیش و آرام کے ساتھ گذار سکتے تھے منصفی کے عہدے تک فائز ہونا معمولی بات نہ تھی لیکن انکے رات دن اسی فکر میں گذرے کہ ملک وملت کے مستقبل کاکیا ہوگا۔؟دوسری جانب یہ فکر کھاتی رہی کہ اگرکوئی قدم نہیں اٹھایا تو انگریزی حکومت ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو کچل کر رکھ دے گی۔انہیں دنوں ہندوستان کے علماء نے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کر دیا۔سر سید نے اس فتویٰ کی پر زور مخالفت کی اور کوشش کی کہ انگریزوں کی مخالفت کے بجائے ان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔مخاصمت نہیں بلکہ مفاہمت کی راہ نکالی جائے۔سر سید کا خیال تھا کہ بغاوت کی اصل وجہ انگریزوں کی غلط پالسیز ہیں۔ انکی رضامندی اور مرضی کے خلاف بہت سے کالے قانون بنائے اور نافذ کیے گئے۔ لہذا ضروری تھاکہ قانون ساز اداروں اور کمیٹیوں میں ہر فرقہ کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے چنانچہ انہوں نے انگریزی حکومت سے اپنی اس تجویز کو منظورِ کرالیا۔سرسید خود ان قانون ساز کمیٹیوں کا حصہ رہے جس کا راست اثر یہ ہوا کہ حکومتِ کے رویّے میں تبدیلی نیز مسلمانوں کے تییں شدت میں کمی آئی۔ دوسری جانب سر سید کا خواب تھا کہ مسلمان جدید علوم و فنون بالخصوص مغربی تعلیم، ساینس و ٹیکنالوجی کا علم حاصل کریں، اپنے مذہبی و تہذیبی تشخص کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اب انہیں ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہویی جو ان مقاصد کو پورا کر سکے۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے سرسید نے مرادآباد پھر غازی پور میں ایک مکتب کی داغ بیل ڈالی لیکن انکے خواب بڑے تھے۔علی گڑھ کی فضا انہیں زیادہ راس آی۔1875 میں مدرستہ العلوم کی بنیاد ڈالی۔ جلد ہی اس مدرسے کی توسیع ہوئی .مدرستہ العلوم سے اینگلو محمڈن اورینٹل کالج بنا۔انگریزوں نے سر سید کے اس تعلیمی مشن کی ستائش کی،راجہ جے کشن داس و دیگر رؤساونوابین نے سر سید کے اسکو جلا بخشی اور یہ ادارہ رات دن ترقی کی جانب گامزن ہوتا گیا۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔اسی زمانے میں سر سید کو تعلیم نسواں کی فکر ہوئی۔ان کا خیال تھا کہ مذہب اسلام نے مرد اور عورت دونوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔اسلام نے ماں کی گود کو پہلی درسگاہ قرار دیا ہے اب ماں اگر مذہبی تعلیم کے ساتھ جدید علوم سے بے بہرہ ہو گی تو پھر بچوں کی تربیت کا کیا ہوگا؟ دنیا میں وہ عزت ووقار کی زندگی کیسے گذار یں گے۔ علاوہ ازیں تمام بنیادی ارکان میں وہ مرد کے برابر شریک ہے۔ یہاں تک کہ عذاب و ثواب میں بھی،ایسی صورت میں عورت کو مساوی تعلیم و تربیت سے کیونکر دور رکھا جائے؟خود سر سید کی تعلیم و تربیت میں ان کی ماں عزیز النساء بیگم کا نمایاں کردار تھا کیونکہ وہ بچپن میں ہی والد کے ساے سے محروم ہو گئے تھےاورماں کی شکل میں عورت کے تعمیر ی کردار کا تجربہ کر چکے تھے اس لیے سر سید نے تعلیم نسواں کی فکر کی۔ عبد اللہ گرلس کالج کا قیام اسی سوچ و فکر کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مساوی حقوق و مساوی تعلیم دونوں پر زور دیا۔سر سید دور اندیش تھے۔وہ پورے ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کا خواب تھا کہ علی گڑھ کے طرزِ پر پورے ملک میں اسکولوں و کالجوں کی چین ( Chain) قایم ہو تاکہ گاوں گاؤں اور شہر شہر تعلیمی بیداری پیدا ہو اور تاریکی کے اندھیرے چھٹ جائیں۔ علی گڑھ کے طرزِ پر ملک بھرمیں اسکولوں و کالجوں کا جال بچھ جاے۔قابل غور ہیکہ آج لا تعداد گروپس مختلف شہروں و علاقوں میں سرگرم ہیں لیکن افسوس کہ اتنے بڑے ملک بالخصوص شمالی ہند میں مسلمانوں کی اپنی کوئی ایسی جدید تعلیمی چین نہیں جسمیں مسلمانوں کے علاوہ برادران و طن بھی تعلیم حاصل کر سکیں۔اگر ایسا ہوتا تو شاید مذہبی نفرت و تشدد کی ایسی فضا نہ ہوتی اورہم نفرتوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو تے۔
سر سید کو ہندو مسلم اتحاد عزیز تھا۔ان کا یہ قول زریں لاثانی ہے کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے۔اس دلہن کی دو آنکھیں ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ان میں سے اگرایک آنکھ سلامت نہ رہی تو دلہن بد صورت کہلاے گی۔ سفر پنجاب کے دوران انہوں نے ہندوؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
” آپ نے جو اپنے لئے ہندو کا لفظ استعمال کیا ہے وہ میری رائے میں درست نہیں کیونکہ لفظ ہندو میری رائے میں کسی مذہب کا نام نہیں بلکہ ہر شخص ہندوستان میں رہنے والا اپنے تییں ہندو کہہ سکتا ہے۔بس مجھے نہایت افسوس ہے کہ آپ مجھ کو باوجود اسکے کہ میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں ہندو نہیں سمجھتے۔”(جدید ہندوستان کے سیاسی اور سماجی افکار از ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی ص44)
آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مختلف مذاہب کے طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں اور لا تعداد لوگ ملک وبیرون ملک میں اس تعلیمی مسیحا کو یاد کررہے ہیں ۔یقینا سر سید کی روح کو سکون مل رہا ہوگا لیکن بے چینی اس بات کی ضرور ہوگی کہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک میں تعلیمی مشن اور ہندو مسلم اتحاد کو اس تیزی سے نہیں بڑھایا جا سکا جسکی ضرورت ہے۔ورنہ 2006 میں پیش ہوی سچر کمیٹی رپورٹ مسلمانوں کی تعلیمی،سماجی و معاشی صورتحال کا ایسا بے رونق آینہ نہ دکھاتی۔اب ذرا غور فرمائیے کہ سر سید نہ ہوتے تو ہماری پسماندگی کا گراف کیا ہوتا۔؟ اور اگر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نظریہ کو اپنایا ہو تو شاید ہمارا اتحاد مزید مستحکم ہوتا.
سر سید کو اپنا تعلیمی مشن آگے بڑھانے میں دو فرنٹ پر نبرد آزما ہو نا پڑا۔پہلا فرنٹ انگریزوں کا جسمیں انہوں نے انگریزی حکومت کو (Convince) منانے کی کوشش کی۔اس فرنٹ پر انہوں نے بڑی حکمت و دانائی سے کام لیا اور اپنے تعلیمی مفادات کے تحفظ میں کامیاب ہونے جبکہ دوسرے مورچہ پر انہیں اپنی قوم کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ جدوجھد بہت تکلیف دہ تھی۔اس عہد کے علماء نے ان کی پر زور مخالفت کی۔ انگریزوں سے قربت اور ماڈرن ایجوکیشن کی وکالت میں ان پر کفر کے فتویٰ صادر کیے۔انہیں زندیق اور نیچری کہا گیا لیکن سر سید نے ہمت نہیں ہاری۔وہ مذہب میں اجتہاد کے قائل تھےاورچاہتے تھے کہ مسلمان اندھی تقلید کی روش کو ترک کردیں۔مذھب میں معروضیت اورساینٹفک طریقے کو اختیار کریں نیزتمام معاملات میں وہ آزادانہ طور پر غوروفکر کریں،غلط اور فرسودہ رسومات،توھم پرستی و دیگر براییوں سے باز رہیں
. ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
“جب تک مسلمان خود آزادانہ طور سے اپنے مسلوں کے بارے میں نہ سوچیں گے اور حکومت کی مدد سے بے نیاز ہو کر عملی میدان میں آگے نہ آیں گے نہ تو وہ اپنی مفلسی دور کر سکیں گے اور نہ ہی پسماندگی اور نہ ہی کھویا ہوا وقار،کیونکہ مذہب کبھی بھی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا”۔(تہذیب الاخلاق جلد5 نمبر 18)
سر سید نے اس عہد میں مسلمانوں کو سیاست میں حصہ لینے کی پر زور مخالفت کی،ان کا خیال تھا کہ مسلمان تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں اسلیے تعلیم ان کی پہلی ترجیح ہو۔1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کی داغ بیل پڑ چکی تھی لیکن سر سید نے خود کو سیاست سے دور رکھا۔وہ کہتے تھے کہ اگر سیاسی آزادی حاصل ہو بھی جاے تو بھی جہالت کی بنا پر وہ حکومت چلا نہیں پایں گے۔قومیں تعلیم کے ذریعے ہی ترقی کرتی اور آگے بڑھتی ہیں۔
اردو زبان وادب سے متعلق سر سید کے نظریات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے اردو ادب کو عشق و عاشقی کے دایرہ سے باہر نکالنے کی کوشش کی اور اسے تنوع بخشا۔ زبان وادب کے ذریعے وہ لوگوں کو بیدار اور انکی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔وہ کام جسے ترقی پسند تحریک نے بہت بعد میں اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا سر سید اس کی داغ بیل بہت پہلے ڈال چکے تھے۔معروف فرانسیسی مفکر پروفیسر ریناں کا خیال تھا کہ عربی زبان میں فکر و فلسفہ کے موضوعات کو بیان کرنے کی بہت زیادہ سکت نہیں۔علامہ شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ سر سید نے محض چند سالوں میں اس کم مایہ زبان کو وہ قوت عطا کی کہ آج اردو میں مختلف النوع مضامین کو قلمبند کیا جا سکتا ہے۔ خود انہوں نے آثار الصنادید، اسباب بغاوت ہند ، خطبات احمدیہ و دیگر اہم موضوعات پر تصانیف لکھیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے انہوں نے تہذیب الاخلاق جیسا معیاری رسالہ جاری کیا۔سر سید نے ہر قسم کے مضامین لکھے۔وہ بات جس کے لیے ضخیم کتابیں لکھی جاتی تھیں سر سید نے محض چند اوراق میں اسے قلمبند کرنے کی کوشش کی۔آسان اور عام فہم زبان کو ترجیح دی۔مشکل و پیچیدہ بیانی سے اجتناب کیا غرض ہماری ترقی،کامیابی و کامرانی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جو سر سید کے احسانات سے گرانبار نہ ہو۔ سر سید کو رخصت ہوئے ایک طویل عرصہ گذر چکا ہے لیکن المیہ یہ ہیکہ ہمارے تعلیمی، سماجی، معاشی ،مذہبی، لسانی وادبی مسائل کا خاتمہ اب تک نہ ہو سکا۔17 اکتوبر کی نسبت سے سر سید کو ایک مرتبہ پھر یاد کیا جارہا ہے اور یاد کیا جاناچاہیے بھی کیونکہ انہیں کے افکار و نظریات پر عمل پیرا ہوکر ہندوستانی مسلمان اپنی تقدیر سنوار اور عزت ووقار کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
سر سید کل آج اور کل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS