جگموہن سنگھ راجپوت
یونیسکو نے ایک مرتبہ پھر ہندوستان میں تعلیم کی حالت زار اور ٹیچروں کی کمی سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ کمی اتنے برسوں سے چل رہی ہے کہ جب جب ایسے سروے اور تجزیے ملک کے سامنے آتے ہیں تو اس میں کوئی نئی بات نہیں لگتی۔ کسی بھی سسٹم کی رفتار جب ڈھیلی ہوجاتی ہے، تب اس کی بڑی سے بڑی کمی اور کمزوری کا بھی جنرلائزیشن ہوجاتا ہے اور اسے ناقابل حصول ہدف کی شکل میں غیرتحریری طور پر قبول کرلیا جاتا ہے۔ تعلیم آئین کی concurrent listمیں ہے۔ اسکولوں اور ریاستوں کی یونیورسٹیوں و کالجوں میں ٹیچروں کی تقرریوں کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہے۔ مرکزی حکومت یا اس کے ذریعہ قائم مرکزی ریگولیٹری ادارے صرف ضروری ہدایات دے سکتے ہیں، لیکن ان پر عمل کرنا وفاقی نظام میں ریاست کا حق ہے، مرکز اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
آزادی کے بعد ملک میں تعلیم کا جتنا فروغ ہوا ہے، اسے مشکل حالات میں حاصل کی گئی بڑی حصولیابی سمجھا جانا چاہیے۔ آج ایسا کوئی طبقہ نہیں ہے جو اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں نہ پڑھانا چاہتا ہو، لیکن بدقسمتی سے سسٹم اس کا ساتھ دینے میں کمزور پڑگیا ہے۔ سسٹم کی حساسیت کا سب سے بڑا برا نتیجہ سرکاری اسکول کی متاثر ہوتی ساکھ ہے۔یہ ملک کے دانشورانہ اثاثہ میں اضافہ میں بڑا رخنہ ہے۔ اکیسویں صدی میں کوئی بھی مہذب اور الرٹ ملک اپنے پچاس فیصد سے زائد بچوں کے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے مواقع سے محروم رکھ کر ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ جن اسکولوں میں طلبا-اساتذہ کا تناسب صحیح نہیں ہوگا، وہاں سے بچے صرف سرٹیفکیٹ ہی حاصل کرتے ہیں اور ضروری نالج، ہنر اور پرسنالٹی ڈیولپمنٹ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک لاکھ اسکولوں میں صرف ایک ٹیچر اور 11لاکھ اساتذہ کے عہدوں کا خالی ہونا ملک میں ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی شرمناک سمجھا جانا چاہیے۔ ہندوستان آج اتنا بغیر وسائل کا ملک تو نہیں ہے کہ وہ بچوں کے لیے تعلیم کے مناسب انتظامات کرنے سے قاصر ہو۔
ٹیچروں کی کمی کے مسئلہ کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ اس کے لیے کون اور کتنا ذمہ دار ہے، یہ کوئی پوشیدہ حقیقت نہیں ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 19اگست، 2015کو ایک آرڈر میں کہا تھا کہ اترپردیش کے چیف سکریٹری اگلے 6ماہ میں منصوبہ تیار کریں کہ کیسے سرکاری خزانہ سے تنخواہ لینے والے ہر شخص کے بچے صرف سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے! سبھی جانتے ہیں کہ ایسا ہوگا نہیں، کیوں کہ متحد ہوکر اشرافیہ اور سرکاری سسٹم اسے ہونے نہیں دیں گے! اور ایسا ہی ہوا۔ یہی طبقہ سرکاری اسکولوں کی موجودہ صورت حال، ساکھ کی کمی اور عوام کے عدم اعتماد کے لیے پوری طرح جواب دہ ہے۔ جب ایلیٹ کلاس کے بچوں کے لیے پرائیویٹ اسکول دستیاب ہیں اور وہاں پڑھانے کے لیے تعلیمی الاؤنس کا التزام دستیاب ہے تو پھر یہ طبقہ سرکاری اسکولوں کی فکر کیوں کرے گا!
نئی تعلیمی پالیسی-2020پر عمل درآمد کے وقت اس سچائی کو قبول کرنا سبھی کے اور ملک کے مفاد میں ہوگا۔ نئی تعلیمی پالیسی اعتماد دلاتی ہے کہ ہر بچے کو ایسے اسکول میں تعلیم ملے گی جہاں بنیادی سہولتیں ہوں گی، مناسب طلبا-اساتذہ تناسب میں پرماننٹ،باضابطہ اور تربیت یافتہ ٹیچرس ہوں گے۔ صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے کئی ریاستوں نے باضابطہ پرماننٹ ٹیچروں کی جگہ مختلف عہدوں سے پارٹ ٹائم-غیرمستقل ٹیچر تھوڑے سے معاوضہ پر مقرر کرنے کا چلن بنالیا۔ اس سے باضابطہ ٹیچروں کے ریٹائرڈ ہونے کے ساتھ باقاعدہ پوسٹ خالی ہوتی گئیں۔ نوکرشاہی کو یہ سسٹم بہت راس آیا۔ جب کوئی ملک تعلیم جیسے اہم اور حساس ٹاپک پر فیصلہ صرف نوکرشاہوں پر چھوڑ دیتا ہے ، تب ایسے مہلک حالات پیدا ہوتے ہیں۔ ملک میں آہستہ آہستہ تعلیمی اور اکیڈمک قیادت کی جگہ پر سول سروس کے افسر اسکول بورڈ، ٹیکسٹ بک بورڈوں، نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ(این سی ای آر ٹی) جیسے اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے لگے۔ یہ کیوں ہوتا گیا، اسے جاننا بہت ضروری ہے۔ کیا ہندوستان کی سول سروس یہ ذمہ داری قبول کرے گی کہ آج اساتذہ کی تقرریوں کے حوالہ سے جو تضادات پیدا ہوئے ہیں، اس کی ذمہ داری صرف اس کی اور اس کی ہی ہے؟
ٹیچروں کی تقرری، پوسٹنگ اور تربیت سے متعلق متعدد مسائل وقت وقت پر توجہ اپنی جانب مبذول کرتے رہے ہیں۔ 1986میں بنی قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرتے وقت یہ طے ہوا تھا کہ ملک میں کوئی بھی ایسا اسکول نہیں ہوگا جس میں کم سے کم دو ٹیچر نہ ہوں۔ ’آپریشن بلیک بورڈ‘ نام کے پروجیکٹ کے تحت مرکزی حکومت نے سبھی ریاستی حکومتوں سے اعدادوشمار طلب کیے اور اس کی بنیاد پر تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ پرائمری اسکولوں کی بلڈنگوں کی تعمیر، تدریسی مواد وغیرہ کے ساتھ ایک لاکھ چوتیس ہزار ٹیچروں کی تقرری کے لیے رقم مہیا کرائی۔ پیسہ تو مرکز کا تھا، مگر سارے کام تو ریاستی حکومتوں کو ہی کرنے تھے، جن میں ٹیچروں کی تقرری، اسکولوں میں کمرے بنوانا، ٹیچنگ مٹیریل کی خرید جیسے کام شامل تھے۔ لیکن کچھ برس بعد زیادہ تر ریاستوں کو جانچ کمیٹیاں بنانے کے لیے مجبور ہونا پڑا اور سارے پروجیکٹ اہداف سے دور ہوتے چلے گئے۔ مثال کے طور پر مدھیہ پپریدش کے ٹیکم گڑھ بلاک میں ٹیچروں کے ایک ٹریننگ پروگرام میں چرچا کے دوران جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ’سیکنڈ ٹیچر‘ کی تقرری سے دیہی اسکولوں میں کتنا مثبت اثر پڑا، تو ایسے ٹیچروں کی شہروں میں ہی تقرری کردی۔ یعنی کاغذوں میں 208اسکولوں میں دو ٹیچر تھے، مگر حقیقت میں وہ وہاں نہیں تھے جہاں ان کی ضرورت تھی! ان کی تنخواہ اس اسکول سے ملی دکھائی جاتی تھی جس میں وہ شاید کبھی گئے ہی نہیں تھے۔
آج کمیونی کیشن ٹیکنالوجی نے نگرانی میں متعدد معنی خیز اصلاحات کی ہیں۔ اب وہ سب ممکن ہوگیا ہے جو پہلے جاننا اور سدھارنا مشکل تھا۔ لیکن آج بھی کسی اسکول کا ٹھیک سے چلنا افسران کی ایمانداری، کام کے تئیں ایمانداری اور ڈیڈیکیشن کے نتیجہ پر ہی منحصر کرتا ہے۔ عوامی نمائندے اگر اپنے علاقوں میں تعلیم کو ترجیح دیں تو تربیت یافتہ اور باضابطہ ٹیچروں کی موجودگی ہر اسکول میں یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ ہر سطح پر ٹیچروں کی کمی سے پوری نسل متاثر ہوتی ہے، لیکن سب سے زیادہ گاندھی جی کے ذریعہ نشان زد ’آخری لائن‘ میں کھڑے پریوار اور ان کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو چرچا میں آنی چاہیے اور جس پر اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر بحث ہونی چاہیے۔ یہ ایسی کمی ہے جو معاشرتی اصلاح میں تاخیر کرتی ہے اور سماجی ہم آہنگی میں اضافہ کے لیے کی جارہی کوششوں کی رفتار کو سست کردیتی ہے۔ اس سے مساوات کے مواقع فراہم کرنے کے لیے آئینی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جو یہی نشان زد کرتا ہے کہ ہم مجاہدین آزادی اور آئین سازوں کو وہ عزت نہیں دے پارہے ہیں جس کے وہ حق دار ہیں۔
ہندوستان کی تعمیرنو کا خواب دیکھنے والے صاحب عرفان کا خواب تھا کہ تعلیم کی روشنی سے ہندوستان میں سنہری صبح لائی جاسکے گی اور اس کے لیے ہر ہندوستان کے شہری کو پورے مواقع مہیا کرنے کا کوئی دیگر متبادل ہے ہی نہیں۔ اس کا واضح ثبوت آئین میں تسلیم شدہ وہ التزام ہے جس میں ریاست یعنی حکومت سے یہ امید کی گئی تھی کہ چودہ برس تک کے ہر بچے کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا انتظام کرنا اس کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر حکومتیں یہ ذمہ داری پوری طرح نبھاتیں، یکساں اسکول سسٹم کو نافذ کرتیں، اسکولوں میں توازن لاتیں اور تعلیم میں کمرشلائزیشن کو بڑھاوا نہ دیتیں تو آج سرکاری اسکولوں کی ساکھ کہیں اعلیٰ سطح پر ہوتی۔
(بشکریہ: جن ستّا)