انتخابِ امیرِشریعت:سو برس بعد امارتِ شرعیہ نے کیا کھویا؟ کیا پایا؟؟(۳)

0
Image: Qindeel

دستورِ امارت میں اوصافِ امیر: ایک صدی کی تاریخ اور تجربات کا جائزہ

امیرِ شریعت کیسا ہونا چاہیے اور کن اوصاف کے حامل افراد کو منتخب کیا جانا چاہیے، انھی سوالوں پرگذشتہ دنوں پوری بحث مرکوز رہی۔

(قسط سوم)

صفدرا مام قادری

آٹھویں امیرِ شریعت کے انتخاب کے مراحل میں یہ بات بڑی حد تک قابلِ توجہ رہی کہ نئے امیرِ شریعت کی پہچان کے لیے کن اشخاص پر غورو خوض کیا جائے۔امارتِ شرعیہ کے موجودہ ضابطے میں ایک بنیادی شق ہے کہ اربابِ حل و عقد کے اجلاس میں امیرِ شریعت کا انتخاب کیا جائے گا۔فی زمانہ اس مجلس میں ۱۵۸/  ارکان ہیں۔ جمہوری انداز کے دور میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ۱۵۸  افراد جس نام پر متّفق ہو جائیں،اسے امیرِ شریعت بنا دیا جائے۔مگر یہ بات بہر طور سوچنے کی ہے کہ اتّفاقِ رائے کا طریقہ کیا ہوگا؟ تیسرے امیرِ شریعت کے انتخاب کے وقت مجلس میں ۶  افراد کے نام پیش ہوئے تھے جس کی وجہ سے ایک ۹ نفری کمیٹی نے اس پر غور و خوض کیا اور تیسرے امیرِ شریعت کا انتخاب پایہئ تکمیل تک پہنچا۔ یہ بات کم دل چسپ نہیں کہ اجلاس میں مولانا سیّد سلیمان ندوی،مولانا عبدالصمد رحمانی،مولانا ریاض احمد اور مولانا منّت اللہ رحمانی کے بھی نام پیش ہوئے تھے مگر مولانا سیّد شاہ قمر الدین صاحب کے نام پر اتّفاق رائے ہوا تھا۔

              اِس زمانے کے اعتبار سے یہ بات آسان نہیں کہ ۱۵۸  افراد کی مجلس ہمیشہ کسی ایک نام پر رضامند ہو جائے۔ ایسی صورت میں اس بات کے روشن امکانات موجود رہیں گے کہ دو،چار اور دس ناموں کی پیش کش کے بعد باضابطہ طور پر ایک ایک شخص سے موزوں فرد کے نام کی تصدیق کی جائے گی اور پھر جس نام کے تعلّق سے سب سے زیادہ لوگوں کی رائے آئے گی، اسے امیرِ شریعت چُن لیا جائے گا۔چوں کہ طریقہئ انتخاب اور اس کی ضمنی تفصیلات کے سلسلے سے دستورِ امارتِ شرعیہ خاموش ہے، اس لیے رائج ملکی قوانین اور ایسے کاموں کے لیے عالمی سطح پر جو اطوار رائج ہیں،اُنھیں ہی آزمانا پڑے گا۔نام آپ جو بھی دیں،رائے شماری کہیں،پرچیاں منگا لیں یا باضابطہ طور پر بیلٹ پیپر کو استعمال میں لائیں، ہر جگہ ووٹنگ کا ہی طور اور اس کی قسمیں رو بہ عمل آئیں گی جسے سادہ نظری سے ’غیر اسلامی‘کہہ دینے سے مسائل کے حل بر آمد نہیں ہو سکتے۔

              دستورِ امارتِ شرعیہ کی تاریخ بہت دل چسپ ہے جس کی رُو سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے اسلاف نے روایت اور تاریخ پر زیادہ بھروسہ کیا اور ایک طویل مدّت تک باضابطہ طور پر مکمّل دستور تیّار کر کے اس دائرہئ کار میں خود کو محصور کر لینے کے لیے زیادہ توجہ نہیں دی۔امارتِ شرعیہ کے موجودہ نائب ناظم، مشہورعالمِ دین اورتصنیف و تالیف کے باب میں فی زمانہ امارتِ شرعیہ کے واحد نمائندہ مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے ایک مضمون میں اختصار کے ساتھ امارتِ شرعیہ کی دستور سازی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ابتدائی طور پر اس دستور کا خاکہ بانیِ امارتِ شرعیہ مولانا محمد سجّادنے پیش کیا تھا۔ موجودہ اربابِ حل و عقد کی ابتدائی شکل(مجلسِ ملّی) کو قایم کرنے کی وہاں بات کہی گئی تھی، مگر مولانا سجّاد کی زندگی میں یہ کام ادھورا رہ گیا۔ابتدائی تین اُمرائے شریعت نے اپنے دور میں دستور کی تکمیل اور عوامی طور پر اُسے جاری نہیں کیا۔ ایک صالح روایت اور قومی ضرورتوں کے پیشِ نظر فیصلے ہوتے رہے اور کبھی کوئی ایسی دشواری نہیں ہوئی کہ دستور کے بارے میں واضح فکر مندی سامنے آئے۔چوتھے امیرِ شریعت مولانا منّت اللہ رحمانی نے دستور کے پُرانے خاکے کو نئے سِرے سے مرتِّب کرنے کی کوشش کی اور ۶۶۹۱ میں دستور کا پہلا مسوّدہ ترتیب پا چکا تھا مگر اسے مجلسِ شوریٰ سے منظور کرا کر عوام کے سامنے لے آیا جائے،یہ کام ۱۹۹۱ تک مولانا منّت اللہ رحمانی کی حیات میں ممکن نہ ہو سکا۔مولانا عبد الرحمان صاحب یعنی پانچویں امیرِ شریعت کے دَور میں ۵۹۹۱ میں پھر نئے سرے سے اس دستور پر توجہ دی گئی اور ۶۹۹۱ میں مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد یہ دستور سامنے آیا۔

              کسی بھی آزاد نفس کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہوگی کہ امارتِ شرعیہ نے اپنی زندگی کے ۵۷ برس اپنے دستور اور آئین کی تکمیل میں لگا دیے۔اس طویل مدّت میں امارتِ شرعیہ اپنی روایتوں اور تاریخ کے بڑے بڑے حوالوں کے سہارے ہی چلتی رہی۔جمہوری دَور کے تقاضے ہمیں بار بار اس بات کے لیے متنبہ کراتے رہتے ہیں کہ اداروں اور تنظیموں کے قیام کے اصول وضوابط ہمیں خود بنا لینے چاہیے اور اپنے کاموں کو آئین کے دائرے میں خوش دلی کے ساتھ لے آنا چاہیے تا کہ مطلق العنانیت نہ پیدا ہو جائے اور ہم خود شترِ بے مہار نہ بن جائیں۔ ہمارے اسلاف نے اگر چہ خلوص،نیک نیتی اورر ایمان کے ساتھ ادارے قایم کیے،اس کی ترقّی میں منہمک رہے اور ہزاروں قربانیاں بھی پیش کیں۔مگر دستور کوحتمی شکل دینے کے معاملے میں امارتِ شرعیہ جیسے عظیم ادارے کو اتنی تساہل پسندی سے کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔

              یہ سمجھنا کہ امارتِ شرعیہ میں ہمیشہ انتخابِ امیر کے مواقع سے کوئی رخنہ پیدا نہ ہوا، یہ درست نہیں۔تیسرے امیرِشریعت کی مثال پیش کی جا چکی ہے۔ پہلے امیرِ شریعت کے انتخاب کے دوران بھی کوئی نہ کوئی ایسی چپقلش ضرور پیدا ہوئی ہو گی کیوں کہ مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے مضمون میں مولانا محمد علی مونگیری کی تحریر سے یہ اقتباس پیش کیاہے:

              ”یہ فقیر اپنے خاص محبّین سے اتنا اور کہتا ہے کہ اس وقت جو امیرِ شریعت ہیں، انھوں نے میرے ہی کہنے سے اس امارت کو قبول کیا ہے۔ اب میں تمام محبّین سے بہ اصرار ومنّت کہتا ہوں کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ کریں۔“

              ان لفظوں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس دور میں بھی کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوئی ہوگی جس سے پریشانیاں پیدا ہوئی ہوں گی اورجس کے سبب مولانا مونگیری کو یہ بیان جاری کرنا پڑا۔آج سے سو برس پہلے کے میعارِ اخلاق ااور خلوص کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ کوئی نہ کوئی غیر معمولی اورنزاعی صورتِ حال ضرور پیدا ہوئی ہوگی۔تب قطبِ عالم کو یہ وضاحت اور اطاعتِ امیر کے لیے خصوصی ہدایت جاری کرنی پڑی۔

              امارتِ شرعیہ کے دستور کی دفعہ دس میں پانچ باتیں ترتیب وار لکھی گئیں ہیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اصل اقتباس پیش کر دیا جائے تا کہ اس موضوع پر گفتگو کے دوران صحیح تناظر میں بحث ممکن ہو سکے۔

              ۱۔ عالم با عمل ہو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے معانی اور حقائق کا معتد بہ علم رکھتا ہو،اغراض و مصالح شریعت و فقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکام ِ شریعت پر عمل پیرا ہو۔

              ۲۔سیاسیاتِ ہند اور سیاسیاتِ عالمِ اسلامیہ سے واقفیت رکھتا ہو، اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صائب الرائے ثابت ہو چکا ہو۔

              ۳۔ذاتی قابلیت وو جاہت کی وجہ سے عوام و خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔

              ۴۔حق گو، حق شنو، جری اور صاحب عزیمت ہو۔

              ۵۔فقہی تعبیر میں اس ذات کو مایزول بہ مقصود الامارت سے تعلق نہ ہو۔

دستور ساز افراد نے زبان و بیان اور معنی کے ناپ تول کے ساتھ اگر چہ یہ اصول شامل کیے مگر ایک ایک لفظ اور بین السطور کو کرید کر انسانی شکل و شباہت کی آپ جب تراش و خراش کریں گے تو معاملات کی پیچیدگیاں از خود سامنے آ جائیں گی۔وصف یا لفظ کی جمع اوصاف ہی ایسا نازک امرہے کہ اسے ترازو پر تولا نہیں جا سکتا۔جمہوری طریقہ  انتخاب پر علامہ اقبال کا شعر ہمیشہ بہ طورِ مثال پیش کیا جاتا ہے:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

مگر ’عالمِ با عمل‘، ’اغراض و مصالح و فقہ اسلامی یا سیاسیاتِ ہند و سیاسیات عالمِ اسلامیہ‘ سے واقفیت،’تجربہ سے اکثر صائب الرائے‘، ’ذاتی قابلیت وو جاہت‘،’عوام و خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر‘، ’حق گو، حق شنو، جری اور صاحب عزیمت‘ وغیرہ میں سے کسی ایک وصف کو تولنے کا کون سا پیمانہ بنایا جا سکتا ہے؟اوصاف اور اخلاق کی مجموعی پرکھ میں ایک تخمینے کی گنجائش ذاتی وجوہات اور ضرورتوں کے مطابق کرنی ہی پڑتی ہے مگر ان اندازوں کو جبریہ اصول یا فیصلے کی مدد سے کیسے تولا جا سکتا ہے؟ لفظِ عالم کو ہندستان میں رواجی مذہبی تعلیم سے کچھ اس طرح سے جوڑ دیا گیا ہے کہ اس کے دائرے میں ایک خاص انداز کے کردار ہی سموئے جا سکتے ہیں۔ہمارے اسلاف کو یہ پتا تھا کہ درس کی منزلوں سے آگے بڑھنے والا آدمی اسی بنیاد پر امیرِ شریعت کے منصب کا حق دار نہ ہو جائے، اس لے اسی میں ’با عمل‘ آدمی کے مزید اوصاف شامل کیے گئے۔اس کا مطلب یہ بھی ہواکہ درسی علم کا حامل بے عمل بھی ہو سکتا ہے جس پر نگاہِ انتخاب نہیں مرکوز ہوگی۔یہاں ایک اور بات منطق کی یہ بھی شامل ہونی چاہیے کہ اس روایتی درس کے باہر رہ کر اگر کسی نے اسلامی علوم سے معقول واقفیت حاصل کر لی ہے اور اس کے اعمال ’با عمل‘ کے دائرے میں آتے ہوں تو اسے آخر عالمِ با عمل کیوں نہ قرار دیا جائے۔

              یہ بات اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گی کیوں کہ جب ابتدائی امرائے شریعت کی تعلیم و تربیت کے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حیثیت موجودہ روایتی سلسلہئ درس سے علاحدہ نظام پر قایم تھی۔یہ بات چوتھے امیرِ شریعت مولانا منّت اللہ رحمانی کے دور میں سامنے آئی جب ندوۃ العلما اور دارالعلوم دیوبند جیسے روایتی اسلامی تعلیم کے مراکز سے فراغت پا کروہ امیرِ شریعت کے منصب تک پہنچ رہے تھے۔عالم کی شناخت میں سند یافتہ ہونا اور مخصوص کتابوں کی ورق گردانی کے ثبوت فراہم کرنا اسلامی علوم کی تدریس و تبلیغ کی طویل تاریخ سے اغماز برتنے جیسا ہے۔کسی نے اپنے گانو کے کسی بوریہ نشیں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا،کسی نے اپنی مسجد کے غیر سند یافتہ مولوی کی نگرانی میں کچھ پایا،کسی صوفی کی چٹائی پر بیٹھ کر مجاہدہ کیا یا کسی نے اپنی خواہش سے دنیا جہان کے علوم و فنون بہ شمول اسلامی علوم کے دفاتر سے اپنے قلب کو روشن کیا۔جیسے ہی ہم نے عالم کے لیے ایک خاص نظام کے تحت فراغت کی شرط نافذ کی،دوسری طرف سے عبد الرحیم خان خاناں کا غور و فکر کے لیے وہ مشہور دوہا سامنے آ جائے گا:

پوتھی پڑھی پڑھی جگ موا،پنڈت بھیا نہ کوئے

ڈھائی آکھر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئے

              گذشتہ مہینوں میں اس موضوع پر خوب خوب مباحث قایم کیے گئے۔مولانا اور مولوی کس کے نام کا حصّہ ہو، اس پر بھی بحث ہو گئی۔مجھے ہمیشہ سو برس پہلے کے بزرگ مولوی مہیش پرساد کی یاد آتی رہی۔قومی تحریک کے دوران مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا مظہر الحق کا ہمیشہ خیال آتا رہا۔ضرب الامثال کی دنیا میں ہم مولوی مدن والی بات کی تلاش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔آخر پوری قوم نے انھیں اس طور پر کیوں کر قبول کیا؟یہ ہمیں کیوں یاد نہیں رہا کہ اُونچی فصیلوں میں سند دینے کے جو اسلامی ادارے نظر آ رہے ہیں، یہ محض ڈیڑھ سو برسوں کی کہانی ہے۔ اس سے پہلے اسلامی علوم کی تعلیم و تربیت کا نظام کس طور پر چلتا رہا اور ہزاروں علما اور ہندستان میں اسلامی علوم سے متعلق لکھی گئیں ہزاروں کتابیں کس طرح عالمِ وجود میں آگئیں؟آپ ان پہلوؤں پر جیسے ہی غور کریں گے، یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ عالم لفظ کی آپ نا درست یا اپنے مطلب کی تعبیر پیش کر رہیں ہیں جس سے آسانی سے کوئی بھی اتّفاق نہیں کر سکتا۔

              شاید یہی اسباب ہوں گے کہ۹  اکتوبر ۱۲۰۲ کو ارباب ِ حل وعقد کے اجلاس میں جہاں ہندستان بھر کے بڑے بڑے علماے کرام جمع تھے، بر سرِ مجلس کسی نے اس بات پر اصرار نہ کیا کہ اوصافِ امیر کی ہر شق پر باضابطہ طور پر بحث کر لی جائے۔علما ے کرام نے امارتِ شرعیہ کے اصل مقصد اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مسائل کو پیشِ نظر رکھا اور اربابِ حل و عقد کی صوابِ دید پر مکمّل اعتماد کیا کہ وہ ذاتی طور پر اور اجتماعی طور پر اوصافِ امیر کا مجموعی حیثیت سے تعین کریں اور پھر فیصلہ کر لیں۔جب اوصاف کو ترازو پر نہیں تولا جا سکتا، ایسی حالت میں انفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبار سے اربابِ حل و عقد کے افرادکو ان کے آئینی حقوق اور ذمّہ داریوں کو ادا کرنے کی آزادی دینا حقیقتاً دستورِ امارتِ شرعیہ اور بانیانِ امارتِ شرعیہ کی ہدایات اور روایات کا حصّہ تھا جسے آئینی طور پر سب سے موزوں طریقہئ انتخاب تسلیم کیا جائے گا۔اس پر اعتراضات تو ہو سکتے ہیں مگر اس سے بہتر نظامِ انتخاب کی اس وقت کوئی دوسری صورت شاید ہی کوئی مجلس کے سامنے آئی ہو۔آٹھویں امیرِ شریعت کے انتخاب کا طریقہئ کار امارتِ شرعیہ کی روایت اس کی دستور کے عین مطابق رہا۔

(مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں)

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS