چڑھتے شیئر سے بڑھتے خدشات

ہندوستانی شیئر بازار میں اس سال سرمایہ کے معاملہ میں 37 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ فرانس کے بعد برطانیہ بھی پیچھے رہنے والا ہے۔ آخر کیوں؟

0

ارون کمار

ہندوستانی شیئر بازار کی حیثیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے معاملہ میں یہ اب برطانیہ سے بہت پیچھے نہیں ہے۔ اس سال ہندوستانی شیئر بازار کے مارکیٹ کیپ میں 37فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 3.46لاکھ کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس برطانوی شیئربازار کے مارکیٹ کیپ میں 9فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے اور اس کی کیپٹل پوزیشن 3.59لاکھ کروڑ ڈالر ہے۔ حالاں کہ وبا کے بعد ہندوستانی شیئر بازار میں بھی گراوٹ آئی تھی، لیکن جلد ہی اس نے رفتار پکڑ لی اور گزشتہ ماہ اس نے پہلی مرتبہ فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے معاملہ میں چھٹا مقام حاصل کرلیا۔ ہندوستانی شیئر بازار کی یہ تیزی عام سرمایہ کاروں کو پرکشش لگ سکتی ہے۔ باوجود اس کے، ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر گزشتہ ایک سال میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ حقیقی معیشت اور مالیاتی شعبہ میں کوئی تال میل نظر نہیں آرہا ہے۔ آخر کیوں؟
اس سوال کا جواب شیئر بازار کے بنیادی تصور میں پوشیدہ ہے۔ کسی بھی ملک کا شیئر بازار اس سچائی پر منحصر ہوتا ہے کہ اس ملک کی معیشت سے کتنی امید وابستہ رکھی جائے؟ آنے والے دنوں کے بھروسے مند نظر آنے پر ہی شیئر بازار کی فہرست میں شامل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اپنے یہاں ایسی فہرست میں شامل کمپنیوں کی تعداد تقریباً 6,000ہے۔ حالاں کہ، ان میں سے بھی بنیادی طور پر 2,000کے قریب کمپنیوں پر زیادہ تر سرمایہ کار اعتماد کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ان 6ہزار کمپنیوں پر بمشکل10-20لاکھ لوگ مالکانہ حق رکھتے ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ 1.35ارب کی آبادی والے اس ملک میں شیئر بازار پر تقریباً 0.1فیصد لوگوں کا ہی کنٹرول ہے۔ تو شیئر بازار میں ہونے والی تیزی بنیادی طور پر ان کے لیے ہی فائدہ مند ہے۔ باقی تین-چار کروڑ عام سرمایہ کاروں کو بہت فائدہ نہیں ملتا، کیوں کہ وہ سبھی چھوٹے سرمایہ کار ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ دقت یہ ہے کہ یہاں کی معیشت میں غیرمنظم شعبہ کا تعاون کافی زیادہ ہے، لیکن قصیدے منظم شعبہ کے پڑھے جاتے ہیں۔ شیئربازار میں نہ تو غیرمنظم شعبہ کی کوئی حصہ داری ہے اور نہ ہی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی۔ یعنی ہندوستانی معیشت کا ایک بڑا حصہ شیئر بازار سے دور ہے۔ جب کہ گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ نقصان انہی شعبوں کو ہوا ہے۔ حقیقت میں، شیئر بازار میں آرہی اس تیزی کی ایک وجہ غیرمنظم شعبہ کو ہورہا نقصان بھی ہے۔ بالخصوص نوٹ بندی کے بعد سے غیرمنظم شعبہ کے حصہ کی ڈیمانڈ منظم شعبہ کے کھاتے میں چلی گئی ہے۔ رہی سہی کسر جی ایس ٹی اور وبا نے پوری کردی۔ غیرمنظم شعبہ کو بیشک جی ایس ٹی سے باہر رکھا گیا ہے، لیکن منظم شعبہ کا اِن پٹ کریڈٹ اس کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسی طرح، کورونا کے بعد مقامی دکان دار کے بجائے لوگ آن لائن خریداری پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے ہیں۔ نتیجتاً، کمپنیوں کے منافع میں اضافہ ہوا ہے اور سرمایہ کار یہ امید کرنے لگے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ کمپنیاں کہیں اچھا ریٹرن دیں گی۔ اسی لیے، انہوں نے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔
ہندوستانی شیئر بازار میں غیرملکی سرمایہ کار بھی خوب آرہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں وبا کے درمیان راحت پیکیج جاری کیے گئے، جس سے بازار میں نقدی (لیکویڈیٹی) بڑھی ہے۔ پہلے کے دنوں میں بینک یا سیونگ پلانس جیسی سرمایہ کاری کے دیگر وسائل تھے، جن میں اچھا خاصا ریٹرن ملتا تھا۔ مگر کورونا نے سرمایہ کاروں کو یہاں سے مایوس کیا ہے۔ کئی ممالک میں تو سود نگیٹو ہوگیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہاں پیسوں کی سرمایہ کاری کرنے پر سرمایہ کاروں کو ہی شرح سود ادا کرنی پڑرہی ہے۔ ہندوستان اس معاملہ میں ابھی اچھی حالت میں ہے۔ چوں کہ یہاں کی ٹیکنالوجی، ای-کامرس، ای-بینکنگ جیسی کمپنیوں میں مقامی سرمایہ کاروں کا بھی اعتماد ہے، اس لیے غیرملکی سرمایہ کار بھی ان میں اپنے لیے امید تلاش کررہے ہیں۔ سرمایہ کاری کرنے والوں میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہیں، جو اس لیے ہندوستانی شیئر بازار میں سرمایہ کاری کررہی ہیں، تاکہ وہ مقامی کمپنیوں پر اپنا کنٹرول کرسکیں۔ یہی سبب ہے کہ ڈالر کے مقابلہ روپے کے کمزور ہونے اور تمام جوکھم کو دیکھنے کے باوجود غیرملکی سرمایہ کار ہندوستانی شیئر بازار پر اعتماد کررہے ہیں۔ حالاں کہ اس جلدبازی میں ان کمپنیوں کو بھی فائدہ ہورہا ہے، جو نسبتاً کمزور ہیں۔
ان سب عوامل نے یہاں پرائس ارننگ ریشیو(کمپنی کے شیئر کی قیمت اوور شیئر سے ملے فائدہ کا تناسب) کافی زیادہ بڑھا دیا ہے۔ منافع اور سرمایہ کاری کا فائدہ(سرمایہ کاری کی قیمت فروخت اس کی خرید سے زیادہ ہو) ملاکر سرمایہ کار کو کافی اچھا فائدہ مل رہا ہے۔ لیکن اگر یہ 10فیصد کے قریب گرگیا تو بینک کی شرح سود سے کم ریٹرن مل سکتا ہے۔ لہٰذا مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں جب تک اضافہ ہوتا رہے گا، سرمایہ کاروں کی چاندی ہوگی، لیکن جیسے ہی یہ مستحکم ہوجائے گا یا بڑھنا بند ہوگا، سرمایہ کاروں کے ہاتھ کھینچنے سے شیئربازار دھڑام سے گرسکتا ہے۔ اس کا نقصان بڑے سرمایہ کاروں کو تو شاید ہی ہوگا۔
یہاں 1992کا ہرشد مہتا گھوٹالہ ہمارے لیے سبق ہوسکتا ہے، جس میں چھوٹے سرمایہ کاروں کی پورے کا پورا سرمایہ تک ڈوب گیا تھا۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے شیئر بازار کو لے کر جو مثبت ماحول عالمی معیشت میں بنا ہے، وہ بھی جھٹکے سے بدل جائے۔ پرائس ارننگ ریشیو میں کافی تیزی سے اس خدشہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
واضح ہے، اس بلبلے کو تھامنے کے لیے خصوصی کوشش کی ضرورت ہے۔ ممکن ہو، تو حکومت شیئر بازار میں روزانہ ہونے والی ٹریڈنگ پر کچھ ’ٹرانزیکشن چارج‘ لگائے۔ اس سے نہ صرف شیئر بازار کا عدم استحکام کم ہوگا، بلکہ سوشل سیکٹر کو بھی پیسہ مل سکے گا۔ فی الحال، ہیلتھ، ایجوکیشن جیسے شعبوں میں کافی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اس سے نئے روزگار بھی پیدا ہوسکیں گے۔ پھر اسپیکیولیشن، یعنی اندازہ پر مبنی شیئر بازار کی یہ اونچائی حقیقی سرمایہ کاری کی طرف سے لوگوں کا منھ موڑ رہی ہے، کیوں کہ اگر محض اندازہ لگانے سے ہی ایک سال میں ہمیں اچھا خاصا ریٹرن مل رہا ہو، تو نئی انڈسٹری میں، جس میں پانچ سال کے بعد ریٹرن آئے گا، سرمایہ کار کیوں پیسے لگائیں گے؟ اس کا ہماری معیشت کو شدید نقصان ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگار ماہر معاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS