کابل(ایجنسی)90 کی دہائی میں دی جانے والی جن سخت سزاؤں کی وجہ سے طالبان کو دنیا بھر میں ظالم اور بے رحم تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے ان میں سے بیشتر کے نفاذ کے پیچھے ملا نور الدین ترابی کا ہی کردار رہا ہے۔
گزشتہ روز امریکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں ملا نور الدین ترابی نے عندیہ دیا کہ افغانستان میں قتل پر سزائے موت، چوری پر ہاتھ کاٹنے جیسی دیگر سزاؤں کا نفاذ دوبارہ ہوسکتا ہے البتہ ممکن ہے کہ اس بار سزائیں سر عام نہ دی جائیں البتہ ملکی قوانین کی اساس قرآن اور اسلامی تعلیمات ہوں گی۔
طالبان کے بانی رہنماؤں میں سے ایک ملا نور الدین ترابی طالبان کے سابق دور حکومت میں وزیر انصاف تھے اور وزارت ترغیب نیکی و تدارک برائی بھی ان کے پاس تھی جس کا کام مذہبی قوانین کا اطلاق تھا۔90 کی دہائی میں طالبان کے دور حکومت میں کابل کے اسپورٹس اسٹیڈیم یا عید گاہ گراؤنڈ میں سیکڑوں افراد کی موجودگی میں مجرموں کو سر عام سزائیں دی جاتی تھیں جس کی دنیا بھر میں مذمت کی جاتی تھی۔
قتل کے مجرم کو عام طور پر مقتول کے خاندان کا کوئی فرد سر پر گولی مار کر ہلاک کرتا تھا جس کے پاس قصاص لینے کا بھی آپشن ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے اور ہائی ویز میں بڑی ڈکیتیوں میں ملوث افراد کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹ دیا جاتا تھا۔
ملا نور الدین ترابی 1980کی دہائی میں سوویت فورسز کیخلاف لڑائی میں اپنی ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے تھے۔ طالبان کی موجودہ عبوری کابینہ میں انہیں جیل خانہ جات کا انچارج مقرر کیا گیا ہے۔ دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا ترابی پر بھی اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
ملا ترابی تنظیم کے انتہائی سخت گیر اور قوانین پر سمجھوتہ نہ کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں ملا ترابی تنظیم کے انتہائی سخت گیر اور قوانین پر سمجھوتہ نہ کرنے والے سمجھے جاتے تھے۔ 1996 میں جب طالبان نے اقتدار حاصل کیا تو جو پہلا عمل انہوں نے کیا وہ ایک خاتون صحافی پر چیخ کر انہیں مردوں سے بھرے کمرے سے باہر نکلنے کا حکم دینا تھا اور جب ایک شخص نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے اسے زور دار تھپڑ رسید کردیا۔
90 کی دہائی میں ملا ترابی گاڑیوں سے آڈیو ٹیپ نکالنے اور گانوں کی کیسٹ کی ریل درختوں اور سائن بورڈز وغیرہ پر لپیٹ دینے کے حوالے سے مشہور تھے۔انہوں نے مردوں کے لیے احکامات جاری کیے تھے کہ وہ تمام سرکاری محکموں میں سر پر عمامہ پہنیں گے اور ان کے ماتحت لوگ اکثر ان لوگوں کی پٹائی کرتے نظر آتے تھے جن کی داڑھی نہیں ہوتی تھی۔
.ملا ترابی کی خود ساختہ فورس لوگوں کو نماز کے لیے مساجد میں لانے کے لیے متحرک رہتی تھیان کے دور میں افغانستان میں کھیلوں پر پابندی تھی اور ملا ترابی کی خود ساختہ فورس لوگوں کو دن میں پانچ بار نماز کے لیے مساجد میں لانے کے لیے متحرک رہتی تھی۔ البتہ رواں ہفتے امریکی خبر رساں ایجنسی کی خاتون رپورٹر کو دیے گئے انٹرویو میں ملا ترابی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان اب تبدیل ہوچکے ہیں، اب طالبان ٹی وی، موبائل، تصویریں اور ویڈیوز کی اجازت دیں گے کیوں کہ یہ لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔
طالبان کے دوربارہ اقتدار میں آنے سے کابل کے شہریوں میں خوف تو ہےتاہم کچھ لوگ اس بات کا اعتراف بھی کررہے ہیں کہ صرف ایک ماہ کے عرصے میں دارالحکومت کابل پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگیا ہے ۔ طالبان سے پہلے یہاں سڑکوں پر ڈاکوؤں کے ٹولے منڈلاتے تھے اور اندھیرا ہونے کے بعد باہر نکلنا محال تھا لیکن اب ایسا نہیں۔ کابل کے وسط میں ایک اسٹور کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مجرموں کو سر عام دی جانے والی سزاؤں کو دیکھ کر اچھا نہیں لگتا لیکن ایسا کرنے سے لوگ جرائم سے باز رہتے ہیں اور انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔‘ایک اور دکاندار نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تاہم وہ خوش ہے کہ اب وہ اندھیرا ہونے کے بعد بھی دکان کھلی رکھ سکتا ہے۔
ہاٹھ کاٹنے کی سزا کی وکالت کرنے والے ملاترابی ایک پیر سے معذور،اور بھی جانیں ان کے حالات ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS