سوشل میڈیاپربرقع کی تصاویرکا معاملہ، افغان ثفاقت کا حصہ یا پھر کچھ اور ؟

0
Image: BBC Urdu

کابل(ایجنسی)وہ افغانستان کا سوشل میڈیا ہو یا پاکستان اور انڈیا کا، کچھ تصاویر جو ہر جگہ گذشتہ چند دن سے وائرل نظر آ رہی ہیں ان میں متعدد خواتین کو سر تا پا سیاہ لباس اور برقع پہنے کابل یونیورسٹی کے لیکچر تھیٹر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان نقاب پوش خواتین کی تصاویر نے ملک میں افغان طالبان کی حکومت میں خواتین کی حیثیت اور اہمیت کے علاوہ اس بات پر بھی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اس قسم کا لباس جس میں عورت کی آنکھیں تک دکھائی نہ دیں کیا افغانستان کی ثقافت کا حصہ ہے؟
سوشل میڈیا پر چند افغان اور پاکستانی صارفین اس برقعے کو’سعودیہ سے امپورڈ شدہ سلفی نظریات کا تحفہ‘یا ’عربنائزیشن‘قرار دے رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ’سیاہ برقع ہمارے معاشروں کو سعودی عرب کی طرف سے ملنے والے سخت گیر نظریات کا تحفہ ہے۔‘چند خواتین صارفین کا کہنا ہے کہ یہ سیدھا سیدھا ’سعودی فیشن‘ہے کیونکہ افغان خواتین یا تو نیلے ٹوپی والے برقعے پہنتی ہیں یا سفید برقع یا چادر یا اسکارف لیتی ہیں۔ صحافی اور مصنفہ فرنچسکو مارینہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسے لباس پاکستان، افغانستان یا انڈیا میں کبھی نہیں دیکھے۔’میری طرح ہزاروں لوگ اس برقعے کا ثقافتی حوالہ جاننا چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان برقعوں کا واحد حوالہ’جہادیوں کی دلہنیں‘ہیں یا ہیری پورٹر کے ڈیٹکٹرز۔۔شاید طالبان بھی مصنفہ رولنگ کے پُرستار ہیں۔‘بی بی سی کی صحافی ثنا ساپی نے ’کیا یہ افغان کلچر ہے‘ پوچھنے والوں کو جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی 11 سال جنوبی افغانستان کے قندھار اور ہلمند جیسے ’قدامت پسند علاقوں اور باقی کے سات سال مشرق کے قدامت پسند علاقوں میں گزارے اور اس تمام عرصے میں، میں نے ’حجاب‘ کی یہ شکل کبھی نہیں دیکھی۔
سابق افغان صدر نجیب اللہ کی بیٹی مسکا نجیب نے ٹویٹ کی کہ گذشتہ مہینے میں حکمرانوں نے پہلے سے ہی مسلمان قوم پر اسلام کی ایک سخت گیر شکل مسلط کی ہے، انھوں نے 100 سال پرانے جھنڈے کو بدلنے کے بعد اب ہمارے متنوع لباس کو غیر ملکی لباس سے بدل دیا ہے۔ اگر طالبان افغان ہوتے تو وہ ہماری شناخت کو محفوظ رکھتے، اسے مٹاتے نہیں۔افغان ہزارہ خاتون فرشتہ عباسی نے اپنی تصویر ٹویٹ کی اور لکھا:’یہ میرا روایتی ہزارہ لباس ہے، میری والدہ اور دادی ہمیشہ یہ رنگین لباس پہنتی رہی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ میں ہر انسان کی پسند کا احترام کرتی ہوں کہ اسے وہی لباس پہننا چاہیے جس میں وہ آرام محسوس کرے، لیکن’مکمل سیاہ حجاب تمام افغان خواتین کی نمائندگی نہیں کرتا۔‘تجزیہ کار بل روگی نے ٹویٹ کیا: افغانستان کی اسلامی امارت میں بنا چہرہ دکھائے (بنا شناخت ظاہر کیے) خواتین کے حقوق کی نمائندگی کی تصویر۔۔۔ اگر آپ کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہو گا تو شاید آپ افغانستان کے حالات پر توجہ نہیں دے رہے تھے۔اسی تصویر پر ردِ عمل دیتے ہوئے شغلہ نے لکھا ’کچھ لوگ جان بوجھ کر افغانستان میں خواتین کے حقوق کو پردے تک محدود کر رہے ہیں۔ یہ پرانا کارڈ مزید نہیں چلے گا! میں نے سوچا تھا کہ سب نے سبق سیکھ لیا ہے لیکن ہم 2001 میں واپس چلے گئے ہیں۔‘اُمید تھی طالبان خواتین کو حجاب میں گھروں سے نکلنے دیں گے لیکن یہ صرف دعویٰ تھا۔’وہ کہتے ہیں ہمیں افغان خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن میں ڈرتی ہوں‘۔ایک اور صارف نے تبصرہ کیا ’کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہ ان خواتین کا اپنا انتخاب ہے۔۔۔ امید ہے ایسا ہی ہو گا تاہم مجھے یقین نہیں یہ خواتین انتخاب کے تصور سے بھی آشنا نہیں۔‘
برقعوں میں ملبوس خواتین کی ان تصاویر کے جواب میں دنیا بھر سے افغان خواتین نے سیاہ برقعوں کو افغانستان کا کلچر ماننے سے انکار کرتے ہوئے #Afghanwomen ٹرینڈ شروع کیا ہے جس میں وہ رنگ برنگے خوبصورت ملبوسات میں اپنی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے افغان کلچر دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

AFP

ان خواتین کا کہنا ہے کہ افغان کلچر میں عورتیں کبھی بنا چہروں اور بے رنگ لباس میں نہیں رہیں۔۔۔ اپنے رنگین لباس کی تصاویر کے ساتھ یہ خواتین لکھتی ہیں کہ ’یہ ہے افغان خواتین کا لباس، رنگین اور خوبصورت۔۔۔ سیاہ نقابوں میں خواتین ہماری نمائندگی نہیں کرتیں۔‘
افغانستان سے تعلق رکھنے والی شمال مغربی لندن کے علاقے ہیرو میں لیبر کونسلر پیمانہ اسد نے اپنی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’ہمارا ثقافتی لباس وہ لباس نہیں ہے جو طالبان نے خواتین کو پہنایا ہوا ہے۔‘تاہم کچھ خواتین اس پردے سے متاثر بھی ہو رہی ہیں۔احسن عمر نے برقعوں میں ملبوس خواتین کی تصویر پر تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے لکھا: اگر نیم برہنہ گھومنے والے خواتین کو اپنی مرضی کا حق حاصل ہے، تو پھر برقعے کا انتخاب کرنے والی خواتین کو کیوں نہیں۔ نیم برہنہ لباس پر تنقید دقیانوسی، برقعے کو گالی روشن خیالی۔ انھوں نے مزید لکھا ’عورت کو عزت دینا ہو، تو اس کی چوائس کا احترام کیجیے پھر وہ چاہے بکنی ہو یا برقعہ۔‘
افغان طالبان اس سے پہلے بھی افغانستان میں حکومت کر چکے ہیں تاہم گذشتہ دور کے برعکس اس مرتبہ وہ باقاعدگی سے طالبان سوشل میڈیا سے برقعوں میں ملبوس خواتین کی تصاویر اور گذشتہ ہفتے ایسے ہی برقعے پہنے ریلی نکالنے والی خواتین کی ویڈیوز شئیر کر رہے ہیں جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ طالبان اپنے نظریات کے فروغ کے لیے پہلی مرتبہ خواتین کو استعمال کر رہے ہیں۔یاد رہے گذشتہ ہفتے افغانستان میں حکومت مخالف خواتین کے مظاہروں کے بعد برقعوں میں ملبوس خواتین نے افغانستان کے چند شہروں میں طالبان کی حمایت میں ریلیاں نکالی تھیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS