سنجے ورما
جدید ہوتی جارہی انسانی تہذیب کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کئی طرح کا کچرا پیدا کررہی ہے۔ یہ کچرا نظریاتی بھی ہے اور فزیکل بھی۔ نظریاتی کچرے کی لاتعداد مثالیں سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا پر ہر وقت ملتی رہتی ہیں۔ معلوم نہیں کہ اس کچرے سے تہذیب کو کبھی نجات مل بھی پائے گی یا نہیں۔ لیکن فزیکل کچرے کی تمام اشکال میں سے ایک کے علاج کے بارے میں کچھ کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ یہ ہے الیکٹرانک کچرا، جس سے نمٹنے کی ایک بہترین مثال ٹوکیو اولمپکس کھیلوں میں پیش کی گئی۔ اولمپکس میں فاتح کھلاڑیوں کو جو تمغے دیے گئے، وہ سبھی کباڑ ہوچکے موبائل(اسمارٹ فون) اور لیپ اسٹاپ سے بنے تھے۔ سونے، چاندی اور کانسہ کے ایسے تقریباً پانچ ہزار تمغے بنائے گئے جو 339کھلاڑیوں و ٹیموں کو دیے گئے۔ یہ موبائل فون اور لیپ ٹاپ جاپانیوں سے ’ٹوکیو میڈل پروجیکٹ‘ کے تحت جمع کیے گئے تھے۔ صرف میڈل ہی نہیں، بلکہ اولمپکس کی مشعل بھی اس ایلیومینیم کے ایسے کباڑ سے بنائی گئی جس کا استعمال 2011میں جاپان میں آئے زلزلہ کے دوران عارضی گھروں کو بنانے میں ہوا تھا۔ اولمپکس کے انعقاد سے تقریباً چار سال پہلے 2017میں شروع کیے گئے ٹوکیو میڈل پروجیکٹ میں جاپان کے 90فیصد شہروں سے تقریباً80ٹن وزن کے ہزاروں پرانے اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ جمع کیے تھے۔ ان کی ری سائیکلنگ سے 32کلو سونا، تقریباً 330کلو چاندی اور تقریباً 2ہزار 250کلو کانسہ نکلا اور میڈل بنوائے گئے۔ اس طرح ٹوکیو اولمپکس دنیا کے پہلے ایسے کھیلوں کی تقریب بن گئی، جس میں دیے گئے سبھی میڈل الیکٹرانک کچرے سے بنے تھے۔
حالاں کہ اس سے پہلے بھی چھوٹے پیمانہ پر ایسے تجربے ہوئے ہیں۔ 2016کے ریو اولمپکس میں 30فیصد سونے اور چاندی کے میڈلز میں کباڑ ہوچکی کاروں سے نکلے سامان کا استعمال ہوا تھا۔ اولمپکس میں کیے جارہے ایسے تجربوں سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر الیکٹرانک کچرے سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششیں شروع نہیں کی گئیں تو یہ جانوروں کی دنیا کے لیے بڑا خطرہ بننے والا ہے۔ یہ خطرہ کتنا بڑا ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ حیران کن ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 2019میں عالمی سطح پر ریکارڈ پانچ کروڑ 36لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوا تو کوئن میری-2جیسے سائز والے 350کروز جہازوں کے وزن کے برابر ہے۔ مساوی طور پر تقسیم کرنے پر الیکٹرانک کچرے کی یہ مقدار تقریباً ساڑھے 7کلو فی شخص ہوتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کسی بھی طرح کی آلودگی اپنے یہاں پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ الیکٹرانک کچرے کے تعلق سے وہاں ٹھوس پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں۔ لیکن ہندوستان میں یہاں نہ تو عوامی سطح پر ایسی کوئی بیداری ہے اور نہ حکومتوں کو اس کی فکر ہے۔ تکنیک کے غلام ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ماحولیات اور صحت کی قربانی لینے والے الیکٹرانک کچرے کی طرف اگر آج نگاہ نہیں ڈالیں گے تو مستقبل میں آنے والی مصیبتوں سے نکل پانا آسان نہیں ہوگا۔
مسئلہ کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں جس طرح الیکٹرانک سامان کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس سے اس کے کچرے کی مقدار میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے۔ بالخصوص اسمارٹ فون بڑی مصیبت ثابت ہورہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ دنیا میں موبائل فونوں کی تعداد انسانی آبادی سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ہندوستان، چین، انڈونیشیا، امریکہ وغیرہ ممالک میں اسمارٹ فونوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کورونا کے دور میں تو اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ کی ڈیمانڈ میں آن لائن پڑھائی جیسی مجبوریوں کے سبب مزید اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ ان کے نئے نئے ایڈیشنز کے تئیں لوگوں کی چاہت نے بھی مشکل پیدا کردی ہے۔ لوگ کچھ ہی مہینوں میں گیزٹ بدلتے رہتے ہیں۔ بازار میں اسمارٹ فون کا نیا ماڈل آتے ہی پرانا موبائل کباڑ میں پھینک دیتے ہیں اور نیا لے لیتے ہیں۔ اس معاملہ میں چین اور ہندوستان خاص طور پر قابل ذکر ہیں جہاں ہر ملک میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی کے پاس موبائل فون ہیں۔ ہندوستان نے 4سال پہلے 2017میں ایک ارب موبائل ہولڈرس کے اعدادوشمار کو چھوا تھا۔ جب کہ چین یہ اعدادوشمار 2012میں ہی پار کرچکا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ابھی دنیا میں صرف چین اور ہندوستان ایسے ملک ہیں، جہاں موبائل ہولڈرس کی تعداد ڈیڑھ ارب کے پار ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان دو ممالک کی بدولت یہ دنیا 8ارب موبائل ہولڈرس کا محلہ بن چکی ہے۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشنز یونین(آئی ٹی یو) کا کہنا ہے کہ ہندوستان، چین، روس، برازیل سمیت تقریباً 10ممالک ایسے ہیں جہاں انسانی آبادی کے مقابلہ موبائل فونوں کی تعداد زیادہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائل اور لیپ ٹاپ جیسے الیکٹرانک آلات مواصلات اور کام کاج کی موجودہ ضرورتوں کے لحاظ سے ایک ضروری وسیلہ بن گئے ہیں۔ ان کے بغیر آج کی دنیا کا کام نہیں چلتا۔ کورونا کے دور میں یہ بات مزید واضح طور پر کلیئر ہوئی ہے۔ ان آلات کی بدولت ڈھیر سارے کام اور تفریحی انتظام گھر بیٹھے ہورہے ہیں۔ لیکن ترقی اور سہولت کے یہ انتظام ہمیں تاریخ کے ایک ایسے انجانے موڑ پر لے آئے ہیں جہاں ہمیں یہ نہیں معلوم کہ آگے کتنا خطرہ ہے۔ حالاں کہ اس بارے میں تھوڑے بہت اندازے- تخمینے ضرور ہیں جن سے مسئلہ کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے 8سال پہلے 2013میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(آئی ٹی ای آر) کے ذریعہ مینجمنٹ اینڈ ہینڈلنگ آف ای-ویسٹ موضوع پر منعقد سمینار میں وزارت ماحولیات اور جنگلات کے سائنسدانوں نے ایک جائزہ کرکے بتایا تھا کہ ہندوستان ہر سال 8لاکھ ٹن الیکٹرانک کچرا پیدا کررہا ہے۔ اس کچرے میں ملک کے 65شہروں کا تعاون ہے، لیکن سب سے زیادہ ای-کچرا ملک کی تجارتی راجدھانی ممبئی میں پیدا ہورہا ہے۔ دنیا کے کچھ دوسرے شہروں کے مقابلہ ہندوستانی شہر تھوڑا پیچھے ہوسکتے ہیں، لیکن یہ کوئی اطمینان بخش بات نہیں ہے۔
اصلی دقت ایسے ای-کچرے سے ہونے والے ماحولیاتی اور انسانی نقصان کی ہے۔ چاہے موبائل فون ہوں، لیپ ٹاپ یا دیگر الیکٹرانک آلات/ڈیوائس و ان کی بیٹریاں وغیرہ، ان سبھی میں استعمال ہونے والی معدنیات، پلاسٹک اور تابکاری پیدا کرنے والے کل پرزے سیکڑوں سال تک زمین میں قدرتی طور پر گھل کر تباہ نہیں ہوتے۔ اندازہ صرف اس سے لگالیں کہ ایک موبائل فون کی بیٹری ہی 6لاکھ لیٹر پانی آلودہ کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک پرسنل کمپیوٹر میں 3.8پونڈ مہلک سیسہ اور فاسفورس، کیڈمیئم و مرکری(پارہ) جیسے عناصر ہوتے ہیں، جو جلائے جانے پر راست ماحولیات میں گھلتے ہیں اور زہریلے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ کمپیوٹروں کی اسکرین کے طور پر استعمال ہونے والی کیتھوڈ رے پکچر ٹیوب جس مقدار میں سیسہ (lead) ماحولیات میں چھوڑتی ہے، وہ بھی کافی نقصان دہ ہوتی ہے۔ کچرے میں پہنچنے والی یہ ساری چیزیں آخرکار انسانوں اور دیگر جانداروں میں کینسر جیسی کئی سنگین بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
ملک کے کئی علاقوں میں غیرملکوں سے ای-کچرا درآمد کرکے ان سے مفید چیزیں نکالنے کا کاروبار بھی بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے۔ یہ ہمارے لیے مستقبل کا کم بڑا بحران نہیں ہے۔ پرانے لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، موبائل فون، بیٹریاں، کنڈیسر اور سی ڈی و فیکس مشینوں کو کیمیکلز میں ڈبو کر ان سے تھوڑی بہت مقدار میں سونا، چاندی، پلیٹینم وغیرہ دھاتوں کو نکالنے کی کوشش ہمارے پانی اور زمینوں کو آلودہ کررہی ہے۔ یہ کوشش بالواسطہ طور پر مہلک ہی ثابت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو تو اب یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی آلودگی اپنے یہاں پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ الیکٹرانک کچرے کے تعلق سے وہاں ٹھوس پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں۔ لیکن ہندوستان جیسے ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نہ تو عوامی سطح پر ایسی کوئی بیداری ہے اور نہ حکومتوں کو اس کی فکر ہے۔ تکنیک کے غلام ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ماحولیات اور صحت کی قربانی لینے والے الیکٹرانک کچرے کی طرف اگر آج نگاہ نہیں ڈالیں گے تو مستقبل میں آنے والی مصیبتوں سے نکل پانا آسان نہیں ہوگا۔
(بشکریہ: جن ستّا)