طلبا پر پڑھائی کے دباؤ کی وبا

تیزی سے بڑھتا ٹیوشن کلچر ہمارے بچوں کیلئے مضر ثابت نہ ہو

0

چیتن بھگت

حال ہی میں چین کی حکومت نے وہاں کے تیزی سے بڑھتے تعلیمی ٹیوشن سیکٹر پر بڑے پیمانہ پر اور سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت پرائیویٹ ٹیوشن بزنس کو غیرمنافع بخش کمپنیاں بننا ہوگا۔ یہ اسٹاک مارکیٹ میں درج نہیں ہوسکیں گی، غیرملکی سرمایہ جمع نہیں کرپائیں گی۔ انہیں ہفتہ کے آخر اور تعطیل کے دن ٹیوشن کلاس چلانے پرپابندی ہوگی۔ والدین اور طلبا کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ پرائیویٹ ٹیوشن کے ذریعہ اضافی کمائی کرنے والے اساتذہ کی شکایت کریں۔ اس کے نتائج سامنے تھے۔ غیرممالک میں درج کئی چینی ایڈٹیک کمپنیوں کے شیئر گرگئے اور اربوں کا نقصان ہوا۔ کئی کمپنیاں تو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہیں۔
چین ہندوستان کے لیے پالیسی سازی کا پیمانہ نہیں ہے۔ پھر بھی ہندوستان میں یہ تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ٹیوشن پر بہت زور دینا یہاں بھی مسئلہ ہے۔ ہم بچوں کو پاگل کردیتے ہیں۔ ان پر ایسے امتحانات کے لیے دباؤ بناتے ہیں جو ان کے ہنر کا سچا امتحان نہیں لیتے اور سلیکشن کی لاٹری کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ نیا ایشو نہیں ہے۔ ٹیوشن کلاسز ہندوستان میں دہائیوں سے ہیں۔ میں خود بچپن میں پڑوس کی آنٹی کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتا تھا جو سبزیاں کاٹتے ہوئے ہوم ورک میں ہماری مدد کرتی تھیں۔ لیکن اب چیزیں بدل گئی ہیں۔ سبزی کاٹنے والی آنٹی چھوٹا انٹرپرائز تھیں۔ آج بڑی ایجوکیشن کمپنیاں ہیں۔ کئی تو اربوں ڈالر کی ویلیو کی ہیں۔ وہ تکنیک کے ذریعہ ہندوستان کے ہر کنبہ میں پہنچ سکتی ہیں۔ وہ جلد ہی ادارہ جاتی (institutionalized) ہوکر ٹیوشن کو اس حد تک مین اسٹریم میں لاسکتی ہیں جہاں صورت حال چینی ٹیوشن کے پاگل پن جیسی ہوجائے گی۔

’دی گـریـٹ مـیـڈ اسـٹـوڈنٹ ریـس‘ فـزکس مـیـں 97 کـی جـگـہ 99 نـمـبـر لانـے مـیـں خـرچ ہـوا وقت نـیـا ہـنـر سـیـکـھـنـے مـیـں لـگا سکـتـے ہـیـں، جـو بـچـوں کـو روزگار کـے لیـے زیـادہ اہـل بنائے گا، جس سـے وہ مـعـیـشـت مـیـں تـعـاون دیں گـے۔ لـیـکن ’گـریـٹ انـڈیـن مـیـڈ اسـٹـوڈنٹ ریـس‘ میں اس کـے بـارے مـیـں سـوچنـے کا وقت نہیں ہـے اور اب اربوں کا سرمایہ اور تکنیک کے سہارے کـے سـاتـھ ہـم ’ٹیوشن وبا‘ کو آتـے دیکھ رہـے ہیں۔

سبھی والدین بچوں کو ’اضافی‘ مدد فراہم کرنے کے لیے دباؤ محسوس کریں گے۔ اسکول کافی نہیں ہوں گے، اسکول کے ٹیچر کافی نہیں ہوں گے۔ ایپ کے ذریعہ ماہر ٹیوٹر متبادل نہیں، ضرورت بن جائیں گے۔ بچے اسکول کے بعد گھنٹوں ٹیوشن میں گزاریں گے۔ کھیلتے ہوئے گزرنے والی شام گزشتہ کل کی بات ہوجائے گی۔ کھیل، موسیقی، ڈرامہ، فن، ڈیبیٹ وغیرہ، جو بھی داخلہ امتحانات یا بورڈ امتحانات میں نہیں آتے، انہیں ہٹا دیا جائے گا۔ والدین اضافی نمبروں کے لیے بچوں کو اپنا بچپن وقف کرنے کے لیے مجبور کریں گے۔ وہی دو نمبر، جو اکثر طے کرتے ہیں کہ آپ زندگی میں کیا کریں گے۔ دہلی یونیورسٹی میں پہلے ہی کٹ آف 100فیصدہے۔ آخر 98فیصدوالے اور 100فیصد طلبا کی صلاحیتوں میں فرق کیا ہے؟ ہم اپنے طلبا کے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ یہ دلیل یہاں نہیں صحیح بیٹھتی کہ مقابلہ اچھا ہے اور جدوجہد سے بچے بہترین مظاہرہ کریں گے۔ طلبا ’اضافی نمبر‘ پانے کے اَن پروڈکٹیو گول(unproductive goal)کے غلام بن گئے ہیں۔ پرائیویٹ ٹیوشن کے دیگر نقصان بھی ہیں۔ وہ ہندوستانی طلبا کے لیے مساوی مواقع یا پیمانہ ختم کرتی ہیں۔ ان میں کئی ٹیوشن لاکھوں کی ہیں۔ کتنے طلبا ان کا خرچ اٹھاسکتے ہیں؟ اگر ٹیوشن کرنے والا باقیوں سے بہتر ہوجاتا ہے تو ہمارا تعلیمی سسٹم کس بات کا تجربہ کررہا ہے؟
تعلیمی کمپنیوں پر پابندی اس کا حل نہیں ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ ساتھ ہی یہ ٹیوشن کی سپلائی پر حملہ کرتا ہے، اس کی ڈیمانڈ کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ اور اگر ڈیمانڈ ہے تو ہندوستانی والدین بچوں کو آگے بڑھانے کے لیے قانون سے بچنے کا کوئی طریقہ نکال لیں گے۔ اس کے کچھ حل دے رہا ہوں۔ پہلا، ہمیں ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بچوں کو سانس لینے دیں۔ انجینئرنگ اور میڈیسن کے علاوہ بھی پیشے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی چیز میں بہترین ہیں تو زندگی میں کہیں نہ کہیں پہنچیں گے۔ دوسرا، ہمیں اچھے کالجوں کی ضرورت ہے۔ ہم دہلی یونیورسٹی جیسی معتبر یونیورسٹیز کیوں نہیں کھول پائے؟ اس کے پیچھے ہمارے الجھے ہوئے اصول و ضوابط ہیں۔ نامور شخص کالج نہیں کھولنا چاہتا اور اب کئی مشکوک لوگ اس شعبہ میں اترگئے ہیں۔ اچھے لوگوں کی کالج کھولنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے، انہیں اچھی زمین دی جائے اور عالمی معیار کے انسٹی ٹیوٹ(world class institute) بنائے جائیں۔ کٹ آف اور داخلہ امتحانات کا دباؤ ہٹائیں۔ تیسرا، تعلیمی اسٹارٹ اپ کی بڑھتی تعداد پر کنٹرول ہو۔ کئی کمپنیاں اچھی خدمات دے رہی ہیں، جیسے لوگوں کو ملازمت کے لیے تیار کرنا، مہارت کو بہتر بنانے یا مختلف معاش سے متعلق چیزیں سیکھنا۔ یہ اچھا ہے۔ حالاں کہ ہندوستانی والدین کا پاگل پن آخرکار ان ایڈٹیک کمپنیوں کو ٹیوشن فیکٹریوں میں بدل دے گا۔ اس لیے اس سیکٹر کو ریگولیٹڈ کرنا ہوگا۔ چین کی کارروائی بتاتی ہے کہ تکنیک کے ساتھ ٹیوشن کے لیے پاگل پن کس حد تک جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار انگریزی کے ناول نگار ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS