پارلیمنٹ میں اس وقت بحث، قانون سازی اورایوان کی کارروائی کا جو معیار ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ملک کا ہر شہری فکرمند ہے کہ آخر کیا ہورہا ہے ۔کل جماعتی میٹنگ کے باوجود ہر اجلاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی ٹھیک سے نہیں چل پارہی ہے ۔نہ تو کسی ایشو پر ٹھیک سے بحث ہوتی ہے اورنہ ایجنڈوں کے مطابق بل پیش کئے جاتے ہیں اورجب ہنگامے کی وجہ سے وقت نہیں ملتا تو آخری وقت میں صرف بلوں کی منظوری کی رسم اداکی جاتی ہے۔اب تو مقررہ وقت تک پارلیمنٹ کا اجلاس بھی نہیں چل پارہا ہے ۔وقت سے پہلے ہی اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا جاتا ہے ۔ اس بار بھی مانسون اجلاس میں کچھ ایسا ہی دیکھا گیا۔ پورے اجلاس کے دوران کارروائی کے نام پر صرف ہنگامہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے کبھی ایوان کی کارروائی کچھ گھنٹوں کے لئے ملتوی کی جاتی رہی تو کبھی دن بھر کے لئے ۔پی آرلیجسلیٹوریسرچ کے مطابق مانسون اجلاس کے دوران لوک سبھا میں 96اورراجیہ سبھا میں 97.30کل 193.30گھنٹے کام ہونا تھا لیکن دونوں ایوانوں میں کام صرف 49.14گھنٹے ہوا۔باقی اوقات ہنگامے یا التوا کی نذر ہوگئے۔اس دوران بل تو پاس ہوئے لیکن ان پر بحث نہیں ہوسکی ، جس کی وجہ سے قانون کی خوبیاں اورخامیاں سامنے نہیں آسکیں ۔
اس صورت حال کیلئے حکومت اپوزیشن کواور اپوزیشن حکومت کو مورد الزام ٹھہراکر اپنا دامن تو جھاڑ لیتی ہیں لیکن اس سے ملک کو جو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اس کی تلافی کیسے ہوگی ؟اسی لئے ملک کا ہرسنجیدہ شہری پریشان اورفکرمند ہے۔ اب تو چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن نے بھی اس صورت حال پر تشویش کااظہارکرتے ہوئے قانون سازی کے طریق کار پر سوال اٹھایا ہے ۔ ان کاکہناہے کہ نہ تو قانون سازی کے دوران پارلیمنٹ میں اس پر مکمل بحث ہوتی ہے اورنہ بحث کی سطح پرانے قانون سازوں کی طرح ہوتی ہے ۔آج بنائے گئے قوانین میں ابہام نظر آتاہے ، ان میں وضاحت نہیں ہوتی ۔ ہم کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ قانون کس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عدالتوں میں مقدمات کی تعداد بڑھتی ہے ۔اس سے قبل پارلیمنٹ میں قوانین کی منظوری کے دوران وسیع اورتفصیلی بحث کی ایک صحت مند روایت تھی ۔جس کی وجہ سے عدالتوں کو ان کے مقصد کو سمجھنا، تشریح کرنا اورجاننا آسان ہوتاتھالیکن آج کل اس میں گراوٹ آئی ہے ۔ چیف جسٹس کاکہنا ہے کہ ایساصرف اس لئے ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دانشور اوروکیل ممبران کی کمی ہے ۔
دراصل حالیہ برسوںمیں ایک تو پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھیک سے نہیں چل پارہی ہے ۔دوسرے یہ کہ قانون سازی کی جو قدیم روایت چلی آرہی تھی، اس پر بہت کم عمل ہوتا ہے۔اب تو آرڈیننس کے ذریعہ بیک ڈورسے قانون سازی کا رجحان چل پڑاہے ۔بہت کم بلوں کو غوروخوض کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا جاتا ہے۔بلوں پر بحث ہوتی ہے تو اس کا معیار بھی ماضی جیسانہیں ہوتا ۔ نہ تو صلاح مشورے اوراعتماد میں لے کر قانون سازی کی جاتی ہے اورنہ بحث کے دوران پیش کردہ تجاویز پر غورکیا جاتا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بل قانون بننے کے بعد بھی متنازع بنے رہتے ہیں اوران پر عدالتوں میں مقدمات چلنے لگتے ہیں۔ قانون سازی سے عدالتوں کاجو بوجھ کم ہونا چاہئے وہ بڑھ جاتاہے۔اسی طرح قانون سازی سے لوگوں کی پریشانی کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے ۔چیف جسٹس آف انڈیا بھی یہی پیغام دینا چاہتے ہیں جس پر سنجیدگی سے غو رکرنا چاہئے ۔پارلیمنٹ میں قانون سازی اور بحث کا معیار بلند ہونا چاہئے تاکہ مسائل پیدانہ ہوں ۔سب کو ساتھ میں اور اعتماد میں لے کر کام کرناچاہئے۔
[email protected]
بحث اورقانون سازی کا گرتامعیار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS