آج وزیراعظم نریندر مودی نے ای- روپی لانچ کیا۔ یہ حکومت کا ایک قابل ستائش قدم ہے کہ اس نے ان لوگوں کے بارے میں سوچا جو نیٹ استعمال نہیں کرتے، نیٹ استعمال کرنے کے لیے ان کے پاس اینڈرائیڈ موبائل نہیں ہیں۔ ای- روپی کے متعارف کرائے جانے سے کئی فائدے ہونے کی امید ہے مگر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ڈیجیٹل پے منٹ سے الگ سسٹم ہے، اس لیے اسے ڈیبٹ کارڈ، کریڈٹ کارڈ یا نیٹ بینکنگ کا متبادل نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ڈیجیٹل کرنسی نہیں ہے، البتہ ڈیجیٹل کرنسی کی سمت میں ایک قدم ضرور ہے۔ ای-روپی صحیح معنوں میں ایک پری پیڈ ای-واؤچر ہے۔ اس کا استعمال وہ لوگ بھی کر سکیں گے جن کے کھاتے بینکوں میں نہیں ہیں۔ کمپنیاں اپنے ملازمین کو گفٹ واؤچر دینے کے لیے اس کا استعمال کر سکیں گی تو سرکاریں اسکالر شپ اور دیگر فلاحی اسکیموں کے بہتر نفاذ کے لیے اس کا استعمال کر سکیں گی۔ کئی بار جیسے یہ ہوتا ہے کہ اسکالر شپ کی رقم طلبا کو دے دی جاتی ہے مگر ان کے گھر کے لوگ اس رقم کا استعمال کسی اور مد میں کردیتے ہیں ، وہ اب ایسا نہیں کر پائیں گے۔ ای- روپی کے متعارف کرانے سے اسکالر شپ کی رقم ای-واؤچر کی شکل میں دی جائے گی۔ اس کا استعمال اسی مد کے لیے ہوسکے گا جس مد کے استعمال کے لیے یہ دی جائے گی۔ اس سے مقصد کے حصول میں بڑی کامیابی ملے گی اور رقم کا بیجا استعمال نہیں ہوگا۔
دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ ای-روپی کے استعمال میں دو پارٹیوں کے درمیان کوئی مخل نہیں ہوپائے گا، یہ ’اینڈ ٹو اینڈ اِنکرپٹیڈ‘ ہے ۔ اس دعویٰ کے بارے میں کوئی حتمی بات فی الوقت کہنا مشکل ہے۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ ای-روپی دعویٰ کے مطابق ہی ’اینڈ ٹو اینڈ اِنکرپٹیڈ‘ ہے یا نہیں، کیونکہ کب کون سے پیگاسس جیسی چیزوں کا انکشاف ہو، یہ کون جانتا ہے، البتہ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ای-روپی کی شکل میں ایک اچھی چیز مودی سرکار نے لانچ کی ہے۔ مستفیدین کو یہ امید رکھنی چاہیے کہ ای-روپی کی وجہ سے انہیں فائدہ پہنچے گا۔فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے پاس کوئی بھی موبائل ہونا چاہیے، کیونکہ ای- روپی کیش لیس اور کون ٹکٹ لیس ڈیجیٹل پے منٹ کے لیے لانچ کی گئی ہے۔ یہ ای-واؤچر کیو آر کوڈ اور ایس ایم ایس کی شکل میں ہوگا۔ ایس ایم ایس اور کیو آر کوڈ کے لیے کسی بھی موبائل پر آ سکتے ہیں۔ انہیں بینک میں اگر اِن کیش کرنا ہے تو بینک میں دکھانا ہوگا اور اگر کسی خاص مد کے لیے واؤچر ہے تو اسے اسی مناسبت سے دکھانا ہوگا۔ مثال کے طور پر کوئی کمپنی کسی ملازم کو کسی ریستوراں میں اہل خانہ کے ساتھ کھانے کے لیے 10 ہزار روپے دینے کے بجائے ای-روپی، ایس ایم ایس یا کیو آر کوڈ کی شکل میں دے گی تو اسے اِن کیش کرنے کے لیے ریستوراں میں بس دکھانا ہوگا۔
ای-روپی کو نیشنل پے منٹس کارپوریشن آف انڈیا نے یوپی آئی یعنی یونائٹیڈ پے منٹس انٹرفیس کے پلیٹ فارم سے ڈیولپ کیا ہے۔ اس کی معاونت ڈپارٹمنٹ آف فنانشیل سروسز، وزارت صحت اور خاندانی بہبود اور نیشنل ہیلتھ اتھارٹی نے کی ہے۔ فی الوقت 8 بینک ای-روپی کے لیے متعین کیے گئے ہیں یعنی ان سے آپ ای-روپی یا ای-واؤچر بنوا سکتے ہیں یا ان میں ای -روپی کیش کرا سکتے ہیں۔ یہ بینک، اسٹیٹ بینک آف انڈیا، ایچ ڈی ایف سی، ایکسس، پنجاب نیشنل بینک، بینک آف برودہ، کینرا بینک، انڈس بینک، آئی سی آئی سی آئی بینک ہیں۔ بینکوں کی فہرست دیکھنے پر یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ سرکار کی کوشش شروع میں ہی زیادہ سے زیادہ علاقوں کو کور کرنے کی ہے تاکہ ملک کے بیشتر لوگ ای-روپی سے مستفید ہوسکیں مگر کسی چیز کے لانچ ہونے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں اصلاح کی کتنی گنجائش ہے، اس لیے گزرتے وقت کے ساتھ ہی یہ اندازہ ہو سکے گا کہ ای-روپی کی لانچنگ کتنی کامیاب رہی ہے اور اس میں کیسی اور کتنی اصلاح کی جانی چاہیے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ای-روپی کی لانچنگ میں دو باتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ پسماندہ طبقے کے لوگوں جن کے پاس اچھے موبائل نہیں ہیں، انہیں بھی نئے تقاضوں کا احساس دلایا جائے، ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے اور دوسری بات یہ کہ بدعنوانی ختم کرنے کی نچلی سطح پر کوشش کی جائے تاکہ مستفیدین کو دی جانے والی راحت ان تک پہنچے اور حالات میں مثبت تبدیلی نظر آئے۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS