آلوک جوشی
گزشتہ ہفتہ کو ہندوستان میں اکنامک لبرلائزیشن کے 30سال مکمل ہوگئے۔ 24 جولائی 1991 کو اس وقت کے وزیرمالیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا۔ اتحادیوں کی بیساکھی پر ٹکی ایک اقلیتی حکومت کے وزیرمالیات تھے وہ۔ وزیراعظم نرسمہاراؤ پر کتنے سیاسی دباؤ کام کررہے ہوں گے، آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر وزیرمالیات کے سامنے ایک بڑا چیلنج تھا۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے ہی وہ دو مرتبہ روپے کی قیمت گرانے کا خوفناک فیصلہ کرچکے تھے۔ تین قسطوں میں ریزروبینک کے پاس رکھا سونا نکال کر غیرممالک میں گروی رکھا جاچکا تھا اور وزیرتجارت چدمبرم نے برآمدات پر سبسڈی ختم کرنے کا بھی اعلان کردیا تھا۔ ظاہر ہے یہ سب بغیر نرسمہاراؤ کی اجازت کے تو نہیں ہوا ہوگا۔ اور اگر یہ سارے اقدامات صحیح ثابت نہیں ہوتے تو اس کا سب سے بڑا خمیازہ بھی نرسمہاراؤ کو ہی ادا کرنا پڑتا۔
لیکن وہ خمیازہ تو سیاسی محاذ پر ہی ہوتا۔ منموہن سنگھ کے سامنے جو چیلنج تھا، وہ کہیں بڑا تھا۔ اور اگر وہ سچ مچ چوک گئے ہوتے تو خمیازہ نہ صرف ان کو اور ان کی حکومت کو، بلکہ اس ملک کی معیشت اور عام عوام کو بھی ادا کرنا پڑتا۔ ملک اس وقت زبردست خسارے اور قرض کے بوجھ سے دبا ہوا تھا، حالت یہ تھی کہ فارن ایکسچینج ریزروس میں صرف تین ہفتہ کی ادائیگی کا پیسہ بچا تھا اور غیرملکوں میں آباد ہندوستانی بھی گھبراہٹ میں بینکوں میں پڑی رقم نکالنے میں مصروف تھے۔ لیکن نہ صرف ملک اس مصیبت سے نکلا، بلکہ وہاں سے ایک سلسلہ شروع ہوا، جو اس کے بعد کئی برسوں تک مسلسل ہندوستان کی ترقی کی کہانی لکھتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ منموہن سنگھ کا وہ بجٹ اور اس کے ساتھ شروع ہوا معاشی اصلاحات پروگرام (economic reform programme) آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑا سنگ میل تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کمزور حکومت کے بہت کم بولنے والے وزیرمالیات منموہن سنگھ کے ارادے کتنے مضبوط تھے، یہ سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ اس بجٹ میں انہوں نے سرکاری خسارہ جی ڈی پی کے 7.6فیصد سے کم کرکے 5.4فیصد کردیا۔ دو فیصد سے زیادہ کی یہ کٹوتی کسی ایک سال میں سرکاری خسارہ میں کی گئی سب سے بڑی کٹوتی ہے۔ یہی نہیں، صنعتوں اور کاروباریوں کو تو جیسے منھ مانگی مراد مل گئی۔ انہیں کوٹا-پرمٹ اور لائسنس کے ہزاروں جھنجھٹ سے ایک جھٹکے میں آزاد کردیا گیا۔ اس کے بعد کی کہانی تو ایک پوری تاریخ ہی ہے۔
لیکن یہ قصہ صرف تاجروں اور صنعت کاروں کو ملی چھوٹ یا سرکاری خسارہ میں کٹوتی کے اعدادوشمار سے سمجھا نہیں جاسکتا۔ دراصل اس بجٹ نے ایک بنیاد تیار کی تھی ایک نئی طرح کی معاشی پالیسی کی۔ اس میں حکومت کی طاقت یا غیرضروری دخل اندازی کو کم کرنے اور جو لوگ بھی اپنا کاروبار یاتجارت کرنا چاہیں، ان کی زندگی آسان بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ اس سے عام انسان کو دو طرح کے فائدے ہوئے۔ ایک سرکاری ملازمتوں کے چکر سے نکل کر بہت سے نوجوان یا تو اپنے اپنے چھوٹے کام دھندوں میں لگے یا پھر انہیں ایسی پرائیویٹ ملازمتیں آسانی سے ملنے لگیں جہاں پیسے بھی اچھے تھے اور ترقی کی امید بھی زیادہ۔
تب سے اب تک کا حال سمجھنے کے لیے کچھ اعدادوشمار پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان کی معیشت میں اضافہ کی شرح یا جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا اوسطاً 3.5فیصد سے 4.4فیصد تک پہنچ پایا تھا۔ وہیں1991کے بعد یہ پہلے 10برسوں میں 5.5فیصد اور پھر بڑھ کر 7فیصد سے اوپر تو پہنچ ہی چکا تھا۔ 2004کے بعد تو زیادہ تر ماہرمعیشت امید ظاہر کرنے لگے تھے کہ اب ہندوستان 10فیصد یا اس سے اوپر کی رفتار پکڑسکتا ہے۔ حالاں کہ وہ امید گزشتہ کچھ وقت میں پھیکی پڑگئی ہے۔ پھر بھی ان 30برسوں میں ملک کی جی ڈی پی یعنی ملک میں ہونے الا کل لین دین دس گنا سے زیادہ بڑھا ہے۔ ملک کی کل درآمد 20گنا ہوگئی ہے جب کہ برآمد 16گنا ہی ہوپائی ہے۔ مگر سب سے دلچسپ نظارہ ہے شیئر بازار کا۔
روزگار، مہنگائی اور کاروبار کے درد کو محسوس کریں، تو شک ہوتا ہے کہ خوشحالی اور ترقی کی باتیں کوئی فسانہ تو نہیں۔ شاید ایسے میں راہ دکھانے کے لیے ہی سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کا ایک پیغام آیا ہے۔ اصلاحات کی 30 ویں سالگرہ پر انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت آگے کی راہ اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہے، جیسی 1991 کے معاشی بحران کے وقت تھی۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں اپنی ترجیحات پھر سے طے کرنی ہوں گی ۔
یہ کہنا تو ٹھیک نہیں ہوگا کہ 1991 سے پہلے ہندوستان میں شیئربازار نہیں تھا یا لوگ اس میں حصہ داری نہیں نبھاتے تھے۔ لیکن اگر 1875 میں شروع ہوئے بامبے اسٹاک ایکسچینج کا سینسیکس جون 1991 میں 1,248 پر تھا اور اب 52,975پر ہے تو 30سال میں 44گنا ہونے کا کافی کریڈٹ معاشی اصلاحات کو ہی جائے گا۔ پھر اس وقت ملک کے میوچوئل فنڈس میں کل ملاکر 80ہزار کروڑ روپے جمع تھے، جو اب 34لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہوچکے ہیں، یعنی 71گنا۔
اور اس وقت بھی ملک میں اگر کوئی چیز پوری رفتار سے دوڑ رہی ہے تو وہ بس شیئر بازار رہی ہے۔ گزشتہ سال میں میوچوئل فنڈس کی رقم 22لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر 34لاکھ کروڑ ہوئی ہے اور سینسیکس بھی تقریباً 40فیصد بڑھا ہے۔ غیرملکی کرنسی فارن ایکسچینج ریزروس تو اس قدر لبالب ہے کہ اب وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ 612 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم جمع ہے اس میں اور حکومت کے لوگ اسے بھی اپنی ایک بڑی حصولیابی کی طرح پیش کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔
یہ سب دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ اچھا چل رہا ہے۔ لیکن اپنے آس پاس کا حال دیکھیں۔ آج روزگار، مہنگائی اور کاروبار کے درد کو محسوس کریں، تو شک ہوتا ہے کہ خوشحالی اور ترقی کی یہ باتیں کوئی فسانہ تو نہیں۔ شاید ایسے میں راہ دکھانے کے لیے ہی سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کا ایک پیغام آیا ہے۔ اصلاحات کی 30ویں سالگرہ پر انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت آگے کی راہ اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہے، جیسی 1991کے معاشی بحران کے وقت تھی۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں اپنی ترجیحات پھر سے طے کرنی ہوں گی اور سب سے پہلے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہر ایک ہندوستانی کو ایک باعزت اور صحت مند زندگی مل سکے۔
واضح ہے، راستہ بہت مشکل ہے اور شیئر بازار میں جو بہار نظر آرہی ہے، وہ اصلیت کا عکس نہیں ہے۔ لیکن وقت گھبرانے یا ہتھیار ڈالنے کا نہیں، بلکہ کمر کس کر پکے ارادے کے ساتھ چیزوں کو درست کرنے میں مصروف ہوجانے کا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)