جمہوری اداروں کا تحفظ ضروری

0

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

جمہوری ریاستیں وہی مثالی اور نمونہ عمل بن پاتی ہیں جن میں عوام کو اپنی رائے دستور کے مطابق رکھنے، ضمیر وعقیدہ اور فکر و نظر کی آ زادی کا پورا اختیارہو۔ جو جمہوری معاشرے انسانی حقوق کی درج بالا اہم اقدار سے عاری ہوں یا ان کے اندر صرف منصب وجاہ کی ہوس ہو تو ان کا کردار اور رویہ عوام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔ قوت اور اقتدار کے نشہ میں عوام کی فلاح وبہبود اور آ ئینی آ زادی کا خیال نہ رکھنا، اسی طرح جمہوریت میں اقلیتی طبقات کے ساتھ کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ کرنا یا ان کے دینی،معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کے تحفظ کو غیر یقینی بنایا جانا، یہ سب وہ باتیں ہیں جو جمہوری معاشروں اور حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔ لہٰذا جمہوری ریاستوں کی اولین ذمہ داری اور ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ عوام کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات یا تنقید کو نہ صرف برداشت کریں بلکہ ایسا ماحول بھی تیار کریں جس سے عوام کو حکومتوں اور ان کی منفی پالیسیوں پر کھل کر اظہار رائے کرنے کی آ زادی حاصل ہو۔ یہ بھی سچائی ہے کہ حکومتوں کی جانب دار یا غیرشعوری پالیسیوں پر آواز اٹھانے سے عوام و خواص کے اندر حکومت کا اعتماد و بھروسہ بحال ہوتا ہے۔ ایسے اداروں،جماعتوں اور حکومتوں کو انسانیت نواز اور ہمدرد و انسان دوست جیسی صفات سے یاد کیا جاتا ہے۔ حکومتوں اور عوام کا رشتہ اس وقت کمزور تر ہوتا ہے جب حکومتیں عوام کے جائز اور بنیادی مطالبات کی بابت ا ٹھائی جانے والی آ واز کو دبانے کی سعی کرتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب عوام اور اس کے حقوق کی پامالی جمہوری نظاموں یا غیر جمہوری معاشروں میں ہوئی ہے تو عوام کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو اپنا بوریا بسترا تک سمیٹنا پڑ گیا ہے۔ معاشرتی استحکام اور جمہوری قدروں کی عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے لازمی طور پر حکومتوں کو عوام الناس کے حقوق کی بازیابی کرنی ہوگی۔ تبھی جاکر ایک صحتمند اور فلاحی ریاست کا وجود عمل میں آ سکتا ہے۔ مگر ہم حالیہ برسوں میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، اس نے عوام کے اندر خوف، بے چینی اور کرب پیدا کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب حکومتیں عوام کی جانب سے کی جانے والی تنقید اور سوال پر برہم ہوجاتی ہیں۔ حق و انصاف کی بات کرنے والے اداروں، جماعتوں،افراد اور شخصیات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ جو یقینا کسی بھی جمہوری نظام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ یہ صورتحال صرف سیاسی ایوانوں ہی میں نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب تعلیمی اداروں اور تنظیموں میں بھی بہت حدتک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ اس کا مشاہدہ آ ئے دن ہم اپنے سماج میں کرتے رہتے ہیں۔ سربراہ یا ادارہ کے خود ساختہ اصولوں اور محدود مفادات کے خلاف کوئی بات کہنے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی غیرمنطقی پالیسی یا نظریہ کے خلاف لب کشائی کرنا جرم کے مترادف گردانا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں کی صورتحال تو یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ اگر کوئی طالب علم اپنے استاد یا ادارے کے سربراہ سے سوال کر لیتا ہے تو اس کو ذاتی سمجھ کر اپنی توہین محسوس کرتاہے اور اس سے بدلہ لینے کے لیے ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں جب ہم جھانکتے ہیں تو اس طرح کی صورتحال کہیں نہیں ملتی ہے۔ آج علم سیاست یا دیگر فنون و علوم میں جو زوال آ یا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ صرف ہمارے نظریات اور اداروں یا ایوانوں کی پالیسیاں ہی محدود نہیں ہوئی ہیں بلکہ ہماری محدود فکر اور عدم توازن نے انسانی رشتوں کو بھی مجروح کیا ہے۔ انسانی حقوق کی بازیافت اور علم کی وسعت و کشادگی سے دنیا اسی وقت محظوظ ہوسکتی ہے جب ہمارے اندر نظریاتی وفکری توازن اور عوام کو کسی بھی طرح کی منفی یا غیرمناسب پالیسیوں پر تنقید و تجزیہ کرنے اور ان کے خلاف اپنی رائے رکھنے کا پورا اختیار ہو۔ جمہوری اور روادارانہ مزاج کو سیاست سے لے کر دیگر تمام اداروں میں مستحکم کرنا ہوگا، تبھی جاکر رنگارنگی اور تکثیریت کی روح کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آج جمہوری نظام اور اس کے تقاضوں و مطالبات کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کی کاوش ہورہی ہے۔ اگر یہ سعی کامیابی کی منزل کو چھوتی ہے تو پھر اس کے نتائج صرف جمہوریت کے علمبردار معاشروں کے لیے ہی خطرناک نہیں ہوں گے بلکہ اس سے متاثر آ نے والی نسلیں بھی ہوں گی۔ جمہوری قدروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جہاں ارباب اقتدار کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، وہیں مفکرین، مدبرین، اداروں، جماعتوں اور تنظیموں کے رہنماؤں کو بھی سردست آگے آ نے اور اس کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری نظام اپنے اندر جو لطائف و نزاکتیں سموئے ہوئے ہے، اس سے براہِ راست افادہ عوام کو ہوتا ہے لیکن اس سے عوام اسی وقت مستفیض ہوسکتے ہیں جبکہ اس کے روحانی و عرفانی کردار پر کسی بھی مخصوص نظریات کے حاملین کا تسلط نہ ہونے پائے۔ جمہوریت کے بنیادی فلسفہ سے اسی وقت معاشرہ آ شنا ہوگا، جب اسے آ زاد ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملے۔

آ ج ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں جمہوریت کو جن حالات کا سامنا ہے، ان پر اجتماعیت کے ساتھ قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے، کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اور اس کے تقاضوں و مطالبات کو اسی وقت پورا کیا جا سکتا ہے جب کہ عوام کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ حکومتوں، اداروں، جماعتوں اور تنظیموں کے منفی یا غیردستوری اصولوں کے خلاف کھل کر تنقید کرسکیں

آ ج کے دور میں عوام کا استحصال کرنا اور بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ اس میں ملوث صرف ارباب سیاست ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ادارے اور تنظیمیں بھی ہیں جو عوامی فلاح اور تعمیر انسانیت کا ڈھول بجاتی ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اب تو ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے اور وہ ہے تعلقات،تعلقات کی بنیاد پر صلاحیتوں اور حسن و خوبی کا معیار مقرر کیا جاتا ہے۔ گرچہ سامنے والا کتنا بھی صلاحیت مند اور با ہنر کیوں نہ ہو اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہ کام صرف دنیاوی اداروں میں ہی نہیں بلکہ دینی اداروں میں بھی اب سرعام ہورہاہے۔ اس تناظر میں ذرا سوچئے کہ تعلیم اور دیگر چیزوں کا کیا حشر ہوگا؟ اس صورتحال سے جہاں جمہوری تقاضے مضمحل ہورہے ہیں، وہیں اجتماعیت اور عوام کے حقوق بھی کہیں نہ کہیں بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اچھائی کی شناخت اور برائی سے نفرت بھی معاشرتی اکائیوں کو مضبوط بناتی ہے۔ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے رویوں پر بھی نظرثانی کرنی ہوگی اور سوچنا ہوگا کہ کہیں ہمارے ذاتی مفاد کی وجہ سے انسانیت کو خسارہ تو نہیں ہورہاہے۔
دریں اثنا یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لیے جس قدر جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، وہیں معاشرے میں امن و امان اور حق و انصاف کو بھی غالب کرنے کی ضرورت ہے۔ جو شخص جس ادارے یا جس جماعت سے یا کسی شعبہ سے وابستہ ہو، اس کو چاہیے کہ وہ انصاف اور عدل کے قیام کی شروعات وہیں سے کرے۔ جب ہمارے معاشرے میں پر امن روایات اور بقائے باہم کا فروغ ہوگا تو لازمی طور پر جمہوری قدروں اور اس کے تقاضوں کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا جا سکتا ہے۔ ہمہ ہمی اور جانبداری جیسی چیزوں کو روکنے کے لیے یا اس کے منفی اثرات سے نوع انسانیت کو بچانے کے لیے ہمیں ان خطوط پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جن کی روشنی میں ایک خوشحال اور جمہوری معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔
آ ج ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں جمہوریت کو جن حالات کا سامنا ہے، ان پر اجتماعیت کے ساتھ قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے، کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اور اس کے تقاضوں و مطالبات کو اسی وقت پورا کیا جا سکتا ہے جب کہ عوام کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ حکومتوں، اداروں، جماعتوں اور تنظیموں کے منفی یا غیردستوری اصولوں کے خلاف کھل کر تنقید کرسکیں۔ جن معاشروں میں وہاں کی حکومتیں یا دیگر شعبے عوام کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ حکومتیں نہایت باوقار اور عوام کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔ تنقید سے جمہوریت ہی کو مستحکم نہیں کیا جاتاہے بلکہ حکومتوں کا بھی عوام کے اندر مقام ومرتبہ بڑھتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS