ابھیشیک کمار سنگھ
انسانی تہذب کے دو بڑے خواب-خلاکو چھونا اور چاند پر لینڈنگ- گزشتہ صدی کی60کی دہائی میں پورے ہوگئے تھے۔ روسی خلاباز یوری گاگرن پہلے ایسے شخص تھے، جنہوں نے 1961میں زمین سے اوپر خلا کہی جانے والی سرحد کو چھوا تھا۔ امریکی خلابازوں نے اپولو-11خلائی گاڑی کے ذریعہ چاند پر 1969میں لینڈنگ کرکے تاریخ بنائی تھی۔ اس دوران بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن-آئی ایس ایس کی تعمیر، امریکی خلائی گاڑیوں(کولمبیا، چیلنجر وغیرہ) کے سفر اور مریخ پر انسانوں کے بغیر خلائی گاڑیوں کے پہنچنے جیسے کئی نئے حیرت انگیز واقعات ہوچکے ہیں، لیکن ان سبھی واقعات میں عام عوام کی راست وابستگی نہیں رہی۔ مگر اکیسویں صدی کی شروعات کے ساتھ یہ خواب بھی پورا ہونے لگا۔ اب اگر کسی کے پاس تھوڑا پیسہ ہو، تو وہ ذاتی طور پر خلائی سفر کا اپنا شوق پورا کرسکتا ہے۔
حال میں 20جولائی 2021کو دنیا کے مشہور کاروباری اور امیزن کے بانی جیف بیجوس اپنی خلائی کمپنی بلو اورِیجن کے خلائی گاڑی سے خلاکو چھو کر لوٹ آئے۔ وہ اپنے ساتھ 82سالہ ایک شخص اور 18سالہ ایک نوجوان کو بھی اس سفر پر لے گئے۔ اس سے انہوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ خلا کی سیر کرنا اب سچ میں بچوں کا کھیل ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ہفتہ کے اندر خلا کو ذاتی طور پر چھو کر کامیابی سے لوٹ آنے کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے 11جولائی 2021کو ایئرلائنس کاروبار چلانے والے دنیا کے ایک خاص بزنس مین رچرڈ برین سن نے خلائی سیاحت کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مصروف اپنی کمپنی ورجن گیلیکٹک کی خلائی گاڑی وی ایم ایم ایو سے اڑان بھری تھی۔ یہ خلائی گاڑی انہیں کمپنی کے پانچ ورکرس(جن میں سے ایک ہندنژاد خاتون شریشا باندلا بھی شامل تھیں) کے ساتھ نیومیکسیکو، امریکہ کے اوپر آسمان میں تقریباً80کلومیٹر اونچائی تک لے گیا تھا۔ اس کے بعد ان کی زمین پر عام جہاز کی طرح ہی کامیاب واپسی بھی ہوئی۔ 34سال کی ایروناٹیکل انجینئر شریشا، کلپنا چاؤلہ کے بعد ہندوستان میں پیدا ہوئی دوسری ایسی خاتون ہیں، جنہوں نے خلا کو چھوا ہے۔
دعویٰ ہے کہ جیف بیزوس سچ میں خلا کو چھوکر آئے ہیں، کیوں کہ ان سے پہلے برینسن کی خلائی گاڑی جس اونچائی تک گئی، اسے خلا کہنے سے متعلق تنازع ہے۔ 80کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کی کشش ثقل ختم ہوجاتی ہے، بے وزن ہونے کا تجربہ ہوتا ہے اور اس اونچائی پر عام جہاز اڑان نہیں بھر پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رچرڈ برینسن کے سفر پر جیف بیزوس نے انہیں مبارکباد دینے کے ساتھ یہ طنز بھی کیا تھا کہ اصلی خلائی سفر پر وہ خود جائیں گے۔
دعویٰ ہے کہ جیف بیزوس سچ میں خلا کو چھوکر آئے ہیں، کیوں کہ ان سے پہلے برینسن کی خلائی گاڑی جس اونچائی تک گئی، اسے خلا کہنے سے متعلق تنازع ہے۔ 80کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کی کشش ثقل ختم ہوجاتی ہے، بے وزن ہونے کا تجربہ ہوتا ہے اور اس اونچائی پر عام جہاز اڑان نہیں بھر پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رچرڈ برینسن کے سفر پر جیف بیزوس نے انہیں مبارکباد دینے کے ساتھ یہ طنز بھی کیا تھا کہ اصلی خلائی سفر پر وہ خود جائیں گے۔ اصل میں جیف بیزوس نے منصوبہ بنایا تھا کہ ان کا جہاز زمین کی سطح سے 100کلومیٹر اوپر اس کیرمن لائن کو عبور کرے، جسے خلا کی ابتدائی حد(initial perimeter) کے طور پر زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بہرحال اب ایک دیگر مقبول کاروباری ایلن مسک بھی ستمبر سے خلائی سیاحت کی ذاتی مہم شروع کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان ساری مہموں کے مدنظر کہا جاسکتا ہے کہ اگلے ہی کچھ وقت میں ہم سیکڑوں لوگوں کو خلا کی سیر پر جاتے دیکھ سکیں گے۔ اس بارے میں ایک دعویٰ برینسن کی کمپنی ورجن گیلیکٹک کا ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ اگلے دو دیگر تجربوں کے بعد 2022سے وہ ان 600امیروں کے خلائی سفر کی مہم شروع کردے گی، جنہوں نے فی سیٹ ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر ادا کرکے اپنی بکنگ پہلے سے کروا رکھی ہے۔ دنیا میں ارب پتی امیروں کی ایسی لمبی فہرست تیار بتائی جارہی ہے جو آنے والے وقت میں خلا کہی جانے والی سرحد کو چھو کر لوٹنا چاہتے ہیں۔
حالاں کہ یہ حصولیابی کافی پہلے حاصل کی جاچکی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابھی تک ایسے سبھی سفر سرکاری خلائی ایجنسیوں کے ذریعہ سے مکمل ہوئے ہیں۔ 20سال پہلے امریکی سرمایہ دار ڈینس ٹیٹو کو روس نے اپنے سویوج راکیٹ سے30اپریل2001کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن بھیجا تھا۔ اس طرح ڈینس ٹیٹو دنیا کے پہلے ایسے شخص بنے تھے، جنہوں نے پیسے خرچ کرکے خلائی سفر کیا تھا۔ ان کے بعد کئی دیگر لوگوں نے خلائی سیر کے اپنے خواب کو ڈھیرساری رقم خرچ کرکے پورا کیا تھا۔ اس فہرست میں جنوبی افریقہ کے مارک شٹل ورتھ (25اپریل2002)، امریکہ کے گریگ اولسن (یکم؍اکتوبر2005)، ایران کی انوشہ انصاری (18 ستمبر 2006) اور سافٹ ویئر آرکیٹیکٹ چارلس سیمون (7اپریل2007) کے نام شامل ہیں، جنہوں نے زمین کے ماحول کو پار کرکے خلا کے نظارے کیے تھے اور وہاں پہنچ کر اپنی خوبصورت زمین کا دیدار کیا تھا۔حالاں کہ یہ پہلے کی ساری مہمیں سرکاری خلائی ایجنسیوں کے سہارے ہوئی تھیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کی مدد سے جو لوگ خلا میں گئے، وہ کسی نہ کسی شکل میں ہوابازی کی صلاحیت سے آراستہ تھے۔ خلائی سیاحت کی حقیقی شروعات تب سمجھی جاسکتی ہے، جب ذاتی طور پر ایسے عام لوگ پیسے خرچ کرکے جب چاہیں پرائیویٹ کمپنیوں کی مدد سے خلائی سیر کے لیے جاسکیں۔
خلائی سیاحت کے تصور کو ذاتی طور پر کامیاب کرنے کا کام واضح طور پر 1995میں شروع ہوا تھا، جب کچھ صنعت کاروں نے اس بارے میں ایک مقابلہ کی شروعات کی تھی۔ 10لاکھ ڈالر کی انعامی رقم والے ’انصاری ایکس پرائز‘ کو جیتنے کے لیے پوری دنیا کی 26ٹیموں نے مقابلہ میں حصہ لیا تھا۔ ان ٹیمو ںکو دوبارہ استعمال ہونے والا ایک ایسا خلائی جہاز بنانا تھا، جس میں تین مسافروں کو زمین سے 110کلومیٹر اوپر خلا کی سیر پر لے جایا جاسکے۔ یہ مقابلہ ’موجاوے ایرواسپیس وینچرس‘ نے جیتا تھا۔ اس ٹیم نے ’اسپیس شپ ون‘ اور اسے خلا میں پہنچانے والا راکٹ ’وائٹ نائٹ‘ بنایا۔ مقابلہ کی ساری شرائط پوری کرتے ہوئے اسپیس شپ-ون کو 4؍اکتوبر2004کو انصاری ایکس پرائز کا فاتح قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2015میں امریکی اسپیس ایجنسی ناسا نے خلائی جہازوں کے دور کے بعد اپنے ایک خلائی جہاز ’اورِیان‘ کا لانچ ایلن مسک کی ذاتی اسپیس کمپنی ’اسپیس ایکس‘ کی مدد سے کیا تھا۔ دسمبر2015میں ’اسپیس ایکس‘ نے امریکہ کے کیپ کنیورل ایئرفورس اسٹیشن سے فالکن-9نام کے راکٹ سے 11سیٹیلائٹ ایک ساتھ چھوڑے تھے۔ فالکن-9 نے نہ صرف سبھی سیٹیلائٹس کو زمین سے 200کلومیٹر اوپر ان کی کلاس میں صحیح سلامت چھوڑا، بلکہ زمین پر محفوظ واپسی بھی کی۔ اسی کمپنی نے 10اپریل2016 میں فالکن-9کو ایک مرتبہ پھر ڈریگن کارگو جہاز کو بین الاقوام اسپیس اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے چھوڑا۔ فالکن-9اس مرتبہ بھی کامیاب رہا۔ اس نے ڈریگن کارگو جہاز کو خلا میں پہنچانے کے بعد بحراوقیانوس پر بنے لینڈنگ پلیٹ فارم پر بحفاظت واپسی کی۔ قابل ذکر ہے کہ فالکن-9نے زمین پر راست(ورٹیکل) لینڈنگ کی، یعنی اسے اترنے کے لیے کسی رن وے کی ضرورت نہیں۔ اسے کسی بھی بیس پر اتارا جاسکے گا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فالکن-9 کا بار بار استعمال ہوسکتا ہے۔
اب اس سفر کا مزہ لینے والے امیروں کی دنیا میں کمی نہیں ہے۔ لیکن سوال ہے کہ آخر پرائیویٹ کمپنیاں اس کام میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہیں۔ اس کا جواب ہے خلائی سیاحت سے ہونے والی کمائی۔ سوئٹزرلینڈ کے ایک یو بی ایس کا اندازہ ہے کہ 2030تک خلائی سیاحت کا بازار 3ارب ڈالر یعنی 2کھرب روپے سے بھی زیادہ کا ہوجائے گا۔
(بشکریہ: جن ستّا)