حالات بدلنے کے آثار

0

افغانستان میں حالات بدلنے کے آثار ہیں اور اسی لیے ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس خطہ کے حالات بڑی تیزی سے بدلیں گے۔ طالبان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے افغانستان کے 85فیصد حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔ طالبان کے مطابق، اسلام قلعہ سمیت ایران اور ترکمانستان سے متصل افغان علاقے ان کے کنٹرول میں ہیں۔ طاقت کے اظہار اور دائرۂ اثر بڑھانے کی طالبان کی کوششوں سے ملنے والے اشاروں سے یہی لگتا ہے کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض ہونے میں انہیں زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی۔ کہنے کو تو امریکہ نے ایک بڑی افغان فوج کھڑی کی ہے مگر ان میں لڑنے کی کتنی طاقت یا کتنا جوش ہے،بتانے کی یہ ضرورت نہیں ہے۔ 9/11کے حملوں کے بعد امریکہ کے اس وقت کے صدر جارج واکر بش نے بڑے طمطراق سے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ جنگ ان کے لیے ’صلیبی جنگ‘ تھی۔ انہو ںنے اس جنگ کے حوالہ سے دنیا کو دو حصوں میں بانٹنے کی کوشش کی تھی یعنی جو ممالک اس جنگ میں ساتھ دیں گے، امریکہ انہیں دوست سمجھے گا اور جو ساتھ نہیں دیں گے، امریکہ کے لیے وہ دوست کے برعکس ہوں گے۔ گرچہ دہشت گردی مخالف جنگ کی شروعات افغانستان سے کرتے وقت جونیئر بش کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ جلدی نہ کریں، افغان آسانی سے ہار ماننے والے لوگ نہیں ہیں، سوویت یونین کے خلاف جنگ نے انہیں جنگ کرنے کا بڑا تجربہ دے رکھا ہے، خود امریکیوں نے انہیں جنگ کرنے کی ٹریننگ دی ہے، اس لیے امریکیوں کی ان کے خلاف جنگ آسان نہیں ہوگی مگر جارج واکر بش کو لگتا تھا کہ امریکہ سپر پاور ہے، خستہ حال طالبان کو ہرانا امریکیوں کے لیے کون سی بڑی بات ہوگی۔ امریکی فوجیوں کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد ایسا محسوس بھی ہوا کہ افغان جنگجو امریکیوں سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ بعد میں عراق سے جنگ کرنے کا فیصلہ افغان جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
اس وقت امریکہ کے وزیردفاع ڈونالڈرمس فیلڈ نے کہا تھا کہ امریکی فوجیوں کو عراق میں 5دن یا 5ہفتے یا 5مہینے رہنا پڑے گا، اس سے زیادہ نہیں مگر ان کی یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ امریکہ کا ایک محاذ افغانستان میں تھا، ایک اور محاذ عراق میں کھل گیا۔ طالبان نے اس موقع کا فائدہ اٹھاکر دھیرے دھیرے حملوں میں اضافہ کردیا۔ امریکہ کو جانی اور مالی نقصان ہونے لگا۔ براک اوباما صدر بنے تو انہوںنے عراق جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا اور افغان جنگ ختم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی شروعات کی۔ اصل میں اوباما نے یہ دیکھ لیا تھا کہ افغان اور عراق جنگوں سے امریکہ کا کچھ بھلا نہیں ہوا، البتہ روس اور چین جیسے ملکوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ اوباما کے بعد ٹرمپ نے افغان جنگ ختم کرنے کی کوشش کی تاکہ چین پر توجہ مرکوز کرسکیں اور اب جوبائیڈن نے افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکیوں کی اگلی نسل کو افغان جنگ کی نذر کرنا نہیں چاہتے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرتے وقت نہ افغانوں اور اس خطے کے بارے میں سوچا تھا اور نہ جنگ ختم کرنے کا اعلان کرتے وقت اس نے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی۔ ہندوستان کا افغانوں سے تاریخی رشتہ رہا ہے، پچھلے 20برس میں ہندوستان نے افغان جنگ میں خود کو الجھانے کے بجائے افغانوں کی مدد کرنے پر توجہ دی ہے۔ افغانستان کے لیے وہ اس خطے کا سب سے بڑا ڈونر رہا ہے۔ اس نے پارلیمنٹ کی عمارت، اسکول، سڑکیں، بجلی گھر اور باندھ وغیرہ بنانے میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ فطری طور پر اسے اس بات کی فکر ہوگی کہ بدحال افغانوں کی امداد کے سلسلے میں رکاوٹ نہ آئے مگر حکومت ہند کو اس سلسلہ میں براہ راست طالبان سے بات کرنی چاہیے، انہیں یہ بتانا چاہیے کہ ہندوستان کی افغانستان میں موجودگی کیوں اہم ہے۔ گزشتہ 20برس کی جنگ میں طالبان کی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ اسی طرح حکومت کرنا نہیں چاہتے جیسے پہلے حکومت کرچکے ہیں، اس لیے امید یہی کی جانی چاہیے کہ وہ ہندوستان کی اہمیت کو سمجھیں گے، اس سے دوستانہ مراسم رکھیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS