محمد فاروق اعظمی
آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرمااپنی نوعیت کے منفرد وزیراعلیٰ ثابت ہورہے ہیں، ایک طرف وہ مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کیلئے قانون بنارہے ہیں تو دوسری طرف نظم و نسق کی بحالی کیلئے قانون سے ماورا قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں۔بی جے پی لیڈر ہیمنت بسواشرما کا کہنا ہے کہ فرار ہونے یا فرار کی کوشش کرنے والے ملزموں کو گولی ماردیا جانا جائز عمل ہے اور یہ امن بحال رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے اب تک ہونے والے پولیس انکائونٹر کاجواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر مجرم پولیس سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں یابھاگنے لگتے ہیں توانہیں مار گرانے کا پیٹرن ہونا چاہیے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ آسام میں اتنے زیادہ پولیس انکائونٹر کیوں ہورہے ہیں تو ان کا جواب ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر ملزم فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں گولی ماردی جانی چاہیے۔
ہیمنت بسوا شرما بعینہٖ وہی بیان دے رہے ہیں جواترپردیش میں ان کے ہم منصب یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں دیاتھا۔جون2017میںیو گی آدتیہ ناتھ نے بھی اسی طرح میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ اگر آپ کوئی جرم کرتے ہیں تو آپ کو ’ٹھوک‘ دیاجائے گا۔یعنی جرم کرتے ہی آپ کو ہلاک کردیاجائے گا۔ ان کے اس بیان کے بعد سے پورے ملک میں تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔سابق وزیراعلیٰ مایاوتی نے انہیں ’ٹھوک دو چیف منسٹر‘ کا لقب بھی دے دیا۔بعد میں ریاستی پولیس کے اعلیٰ حکام نے اپنے وزیراعلیٰ کے بیان کی اول جلول توضیحات پیش کرکے معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ جی کے اس بیان کے بعد سے صرف6مہینے کے اندر ہی کم وبیش700افراد جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیے گئے۔ اتر پردیش میں اب تک جعلی تصادم میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد5ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ ان ہلاکتوں میں وکاس دوبے کا معاملہ آج بھی زیربحث ہے۔چار سال قبل یوگی کے بیان اور پولیس والوں کو قتل کا لائسنس دے دیے جانے کے بعد اترپردیش میں نظم و نسق کی جو صورتحال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔
ہـنـدوسـتـان دنـیـا کـی سب سـے بـڑی جـمـہـوریت کا دعـویٰ بـھـی رکـھـتـا ہـے۔ اگـر یـہـاں حـکـومـتـوں کـی جـانب سـے ہـی مـاورائـے عدالت قـتـل کـو جـائـز قـرار دیـا جـانـا جـہـاں پـوری دنـیـا مـیـں ہـنـدوستان کـی شـرم سـاری کا بـاعـث ہـوگا، وہـیـں ہـنـدوسـتـان میں قـانـون کـی حـکـمـرانـی قـصـہ پـاریـنـہ بن جائے گی اور پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں بلکہ قاتلوں کا ایسا گروہ ہوگی جو کسی کو کہیں بھی موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔
اب ان ہی نقش قدم پر چلتے ہوئے آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے جو اقدامات شروع کیے ہیں، اس کے نتائج کا صرف تصور ہی کیاجاسکتا ہے۔ آسام میں جعلی پولیس تصادم کی وجہ سے اموات اور ہلاکتیں اترپردیش کے مقابلے کتنی ہوں گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ابھی جو صورتحال ہے اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ہیمنت بسوا شرما کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صرف ایک ماہ کے دوران آسام میں ہونے والے پولیس تصادم میں13افراد موت کی نیندسلادیے گئے ہیں جب کہ کئی درجن افراد شدیدزخمی ہیں اور آج بھی ان کا علاج ہورہاہے۔ان ملزمین پر مویشیوں کی اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور عصمت دری کے الزامات تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام ملزمین مسلمان ہیں۔وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کی جانب سے پولیس تصادم میں ہلاکت کو جائز ٹھہرائے جانے کے بعد سے صورتحال انتہائی حد تک بگڑنی شروع ہوگئی ہے۔ چوری، رہزنی اور چھنتائی کے معمولی معاملات میں بھی پولیس انتہائی ظالمانہ کردارادا کرنے لگی ہے۔ 11جولائی کو دو الگ الگ واقعات میں آسام کی پولیس نے دو افراد کو ہلاک کرڈالا۔ ان دونوں مہلوکین کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ پولیس کا اسلحہ چھین کر پولیس کی تحویل سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نام عبدالخالق ہے اور دوسرے کا نام عابدین ہے۔ان دونوں پر ڈاکہ زنی اور قتل کے الزامات تھے۔اب اسے اتفاق کہاجائے یا کچھ اور کہ حکومت کی جانب سے پولیس تصادم کو درست ٹھہرائے جانے کے بعد سے اب تک جتنے واقعات ہوئے ہیں، ان میں ہلاک ہونے والے مسلمان ہی ہیں۔ ریاست کی حزب اختلاف کانگریس نے وزیراعلیٰ کے اس بیان کی مذمت ضرورکی ہے لیکن صرف مذمت اور بیان بازی سے ہیمنت بسواشرما کا موقف بدلنے والا نہیں ہے۔ جب سے انہوں نے بیان دیا ہے ریاستی پولیس افسران بصد مسرت اس پر عمل آور ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
آئین اور ملک کی کئی عدالتوں نے بھی پولیس تصادم کو غیرقانونی اورا نسانی حقوق کے خلاف سرا سر ظلم قرار دیا ہے اور حکومت کو ہدایت دے چکی ہیں کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنائیں۔ملک کے سپریم کورٹ اور کئی ریاستوں کے ہائی کورٹ نے بارہاکہا ہے کہ ملزم خواہ وہ کیسا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، اسے عدالت کے روبروپیش کیاجانا چاہیے اور نظام انصاف کے مقررہ عمل سے گزارکر ہی اسے عدالت سزایاب کرے گی۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ملزم پر فائر کھول دے یا اسے کسی اور طرح سے سزا دے۔حتیٰ کہ سپریم کورٹ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ پولیس اگر حفاظت خود اختیاری کے تحت بھی فائر کرتی ہے تو اسے عدالت کے سامنے اپنے اس عمل کی توضیح کرنی ہوگی۔
آئین اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد پولیس کاکام ہے اور حکومت اسے یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن یہاں تو حکومت خود پولیس کو کھلی چھوٹ دے رہی ہے کہ وہ آئین کو پامال کرتے ہوئے ’ناپسندیدہ افراد‘ کو ہلاک کرڈالے۔یہ صورتحال دنیا کے کسی بھی مہذب سماج کیلئے ناقابل قبول ہونا چاہیے۔ اترپردیش میں یوگی جی کی ’ ٹھوک دو پالیسی‘ نے ریاست میں جنگل راج تو بناہی دیا ہے، اب آسام میں بھی ہیمنت بسوا شرما یہی کرنے جارہے ہیں جہاں قانون کی بجائے پولیس کی حکمرانی ہوگی اور آئین، قانون، عدالت، وکالت، انصاف کے عمل سے گزارے بغیر کسی بھی ملزم کو ہلاک کردینے کوپولیس اپنے لیے باعث افتخار سمجھے گی۔ان اقدامات کو دنیا کے کسی بھی مہذب سماج میں قبول نہیں کیاجاسکتا ہے کجا یہ کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ بھی رکھتا ہے۔اگر یہاں حکومتوں کی جانب سے ہی ماورائے عدالت قتل کو جائز قرار دیاجاناجہاں پوری دنیا میں ہندوستان کی شرم ساری کا باعث ہوگا، وہیں ہندوستان میں قانون کی حکمرانی قصہ پارینہ بن جائے گی اور پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں بلکہ قاتلوں کا ایسا گروہ ہوگی جو کسی کو کہیں بھی موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔
[email protected]